رہ حیات میں بس وہ قدم بڑھا کے چلے
رہ حیات میں بس وہ قدم بڑھا کے چلے
دئے لہو کے سر راہ جو جلا کے چلے
گلوں کو پیار کیا اور گلے لگا کے چلے
چمن میں خاروں سے دامن نہ ہم بچا کے چلے
پتا چلا نہ مسافت کا پا گئے منزل
قدم سے جب بھی قدم دوستو ملا کے چلے
نہیں ہیں واقف اسرار لذت منزل
جو راہ شوق سے کانٹے ہٹا ہٹا کے چلے
ہزار خار ہیں دامن کو تھامنے والے
ہمارے ہاتھ سے آنچل جو تم چھڑا کے چلے
وہ گزریں شوق سے بے خوف و بے خطر ساغرؔ
دکھا کے راستہ منزل کو ہم بتا کے چلے