رفیقوں کو مدد کرنے پکارا ہم نہیں کرتے

رفیقوں کو مدد کرنے پکارا ہم نہیں کرتے
خدا کافی ہے بندوں کا سہارا ہم نہیں کرتے


زباں یہ حق کی عادی ہے کسی سے ڈر نہیں سکتی
سبھی کچھ کھل کے کہتے ہیں اشارہ ہم نہیں کرتے


سمندر میں اتر کے رخ ہوا کا موڑ دیتے ہیں
کبھی ساحل سے طوفاں کا نظارہ ہم نہیں کرتے


یہ خودداری ہماری ہم کو اپنی جاں سے پیاری ہے
جھکا کے سر کو ٹکڑوں پر گزارا ہم نہیں کرتے


سبق لیتے ہیں ہم اپنی خطا سے علم پاتے ہیں
خطا جو ہم سے ہو جائے دوبارہ ہم نہیں کرتے


بڑی مشکل سے سیکھا ہے سبق ہم نے سیاست کا
تجھے قدموں میں رکھتے ہیں ستارہ ہم نہیں کرتے


ہماری جیب خالی ہے تو کیا یہ دل ہے شاہوں کا
فقیری میں بھی مفلس سے کنارہ ہم نہیں کرتے


یہ ممکن ہے کہ کچھ کڑوی لگیں شمشیرؔ کی باتیں
کھرے الفاظ لکھتے ہیں یہ آرا ہم نہیں کرتے