رازدار دل بیتاب ہوا کرتا ہے

رازدار دل بیتاب ہوا کرتا ہے
اشک گنجینۂ نایاب ہوا کرتا ہے


گو نہ ساقی ہے نہ محفل ہے مگر زنداں میں
دیر تک ذکر مئے ناب ہوا کرتا ہے


تلخ ہوتی تو ہیں غیروں کی جفائیں لیکن
تلخ تر طعنۂ احباب ہوا کرتا ہے


فکر آرائش گلشن سے جنوں ہے آزاد
ہوش جاں دادۂ اسباب ہوا کرتا ہے


میری دنیائے محبت میں سکون ساحل
نذر جولانیٔ گرداب ہوا کرتا ہے


اشک خوددار جو شرمندہ نہ ہو دامن سے
رشک صد گوہر‌ خوش آب ہوا کرتا ہے


نور جو خاک کے ذروں کو درخشانی دے
فخر خورشید جہاں تاب ہوا کرتا ہے