راز میں رکھ تری رسوائی کا قصہ میں ہوں

راز میں رکھ تری رسوائی کا قصہ میں ہوں
مجھ کو پہچان ترا دوسرا چہرہ میں ہوں


دفن ہیں تیرے کئی راز مرے سینے میں
جو ترے گھر سے گزرتا ہے وہ رستہ میں ہوں


مدتوں بعد بھی جاری ہے عذابوں کا سفر
قطرہ قطرہ تری آنکھوں سے ٹپکتا میں ہوں


آ ذرا بیٹھ مرے پاس بھی کچھ پل کے لیے
میرے ہمدم تری دیوار کا سایہ میں ہوں


اب بھی زندہ ہوں تری روح میں غم کی صورت
کون کہتا ہے کہ ٹوٹا ہوا رشتہ میں ہوں


مجھ کو پوجے گی تہ خاک جو دنیا ہے شکیلؔ
کل جو ٹوٹا تھا فلک سے وہ ستارہ میں ہوں