رات تو کالی تھی لیکن رات گزر کر صبح جو آئی

رات تو کالی تھی لیکن رات گزر کر صبح جو آئی
اور گھٹے کم تاب اجالے اور بڑھے ظلمات کے سائے
اب میں سحر کے نغمے گا کر خود کو کب تک دھوکے دوں گا
ہونٹ ہوئے جاتے ہیں زخمی دل کا یہ عالم بیٹھا جائے