رات کی تیرگی سجائیں گے

رات کی تیرگی سجائیں گے
آنسوؤں کے دیے جلائیں گے


دل میں دیوار اک اٹھائیں گے
درد تیرا الگ بسائیں گے


آپ ظلموں کی انتہا کر لیں
ہم ابھی صبر آزمائیں گے


زندگی کے اداس لمحوں میں
اور کتنے عذاب آئیں گے


کاٹنا ہیں جڑیں قدامت کی
پودے اب کچھ نئے لگائیں گے


کوئی سیلاب آنے تک آسیؔ
ہم ندی پار کر ہی جائیں گے