راستے ہم سے راز کہنے لگے
راستے ہم سے راز کہنے لگے
پھر تو ہم راستوں میں رہنے لگے
میرے لفظوں کو مل گئی آنکھیں
سارے آنسو لبوں سے بہنے لگے
شہر کے لفظ کر دیے واپس
اپنی ذات اپنی بات کہنے لگے
ہم ابھی ٹھیک سے بنے بھی نہ تھے
خود سے ٹکرائے اور ڈھہنے لگے
اس نے تلقین صبر کی تھی سو ہم
جو نہ سہنا تھا وہ بھی سہنے لگے
ہم نے مٹی کی بیڑیاں کاٹیں
توڑا زندان آب بہنے لگے
مژدہ اے ساکنان شہر سخن
فرحتؔ احساس شعر کہنے لگے