راشدہ باجی اور ایک لڑکی
راشدہ باجی نے چپ سے منہ پر مرے
ایک تھپڑ جو مارا تو میں ہنس پڑی
دے کے پھر ایک گھونسا انہوں نے کہا
کان کھینچوں تمہارا تو میں ہنس پڑی
سب دلیلیں جو ان کی تھیں معقول تھیں
اور مجھے پیٹنے میں وہ مشغول تھیں
بھوکی اک بکری چپکے سے جب چر گئی
آ کے ان کا غرارہ تو میں ہنس پڑی
ان کا برقع بندریا کو پہنا دیا
پرس بندر کے ہاتھوں میں پکڑا دیا
جب وہ یہ کہہ کے گھبرا کے رونے لگیں
ہائے برقع ہمارا تو میں ہنس پڑی
کھا گئی عید کی وہ سویاں مری
مجھ سے بولیں کہ کھا لے تو بیاں مری
مارے غصے کے جھٹ آستینوں کو جب
بازووں سے اتارا تو میں ہنس پڑی
راشدہ باجی سن لو نمازی بھی ہیں
وہ مجاہد بھی ہیں اور غازی بھی ہیں
باندھ کر سر پہ پگڑ انہوں نے جوں ہی
دشمنوں کو پکارا تو میں ہنس پڑی