راحتوں کے دھوکے میں اضطراب ڈھونڈے ہیں

راحتوں کے دھوکے میں اضطراب ڈھونڈے ہیں
ہم نے اپنی خاطر ہی خود عذاب ڈھونڈے ہیں


یہ تو اس کی عادت ہے روز گل مسلتا ہے
آج بھی مسلنے کو کچھ گلاب ڈھونڈے ہیں


رات آندھی آنے پر اڑ گئے تھے خیمے سب
غافلوں نے مشکل سے کچھ طناب ڈھونڈے ہیں


تیری حکمرانی بھی ختم ہونے والی ہے
ہم نے کچھ کتابوں میں انقلاب ڈھونڈے ہیں


میرے کچھ سوالوں کے تم نے ایک مدت میں
مسئلوں سے ہٹ کر ہی کیوں جواب ڈھونڈے ہیں


کالے کارنامے اور کالا منہ چھپانے کو
کچھ سفید پوشوں نے کچھ نقاب ڈھونڈے ہیں


دیکھیے ضمیرؔ ہم بھی ہیں عجب ہی دیوانے
چھوڑ کر حقیقت کو ہم جواب ڈھونڈے ہیں