راہ منزل کی مسافر کو سجھاتے ہیں چراغ
راہ منزل کی مسافر کو سجھاتے ہیں چراغ
روشنی کر کے اندھیروں کو مٹاتے ہیں چراغ
جن کی آنکھیں نہیں ان کے لئے بے فیض مگر
آنکھ والوں کے بہت کام بناتے ہیں چراغ
دن نکلتا ہے تو ہو جاتے ہیں یہ بے وقعت
ظلمت شب میں مگر رنگ جماتے ہیں چراغ
یاد کرتا ہوں میں اس رشک قمر کو ایسے
جس طرح لوگ اندھیرے میں جلاتے ہیں چراغ
ڈر کے تاریکی سے جو ترک سفر کرتا ہے
حوصلہ ایسے مسافر کا بڑھاتے ہیں چراغ
چین سے بیٹھنا لوگوں کو کہاں آتا ہے
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ
درس دیتے ہیں محبت کا زماںؔ کو اکثر
لوگ نادان ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ