رابطہ کیوں رکھوں میں دریا سے
رابطہ کیوں رکھوں میں دریا سے
پیاس بجھتی ہے میری صحرا سے
ہے مسائل سے اب وہی الجھا
رشتہ جوڑا ہے جس نے دنیا سے
خوشیاں امروز کی وہ پاتا ہے
جو کہ غافل نہیں ہے فردا سے
جس کو حاصل تھیں نعمتیں ساری
اب ہے محروم آب و دانہ سے
ہے خدا کی نظر میں عالی وہی
خوش دلی سے جو ملتا ادنیٰ سے
تھی جسے ساقی سے ظفرؔ نسبت
تشنہ لوٹا وہ بادہ خانہ سے