رابطہ بن نہیں رہا راستہ بن نہیں رہا
رابطہ بن نہیں رہا راستہ بن نہیں رہا
بھیڑ کے ساتھ ہوں مگر قافلہ بن نہیں رہا
ناقۂ جاں کو روکئے دور تلک سراب ہے
اور یہ دل کہ اب تلک پیشوا بن نہیں رہا
زاد سفر نہ پوچھیے زاد سفر کے نام پر
بے نمو ایک زخم ہے آبلہ بن نہیں رہا
اتنا تو کہہ کہ ہاتھ میں اور کوئی ہنر بھی ہے
تیرا سخن ترا کفیل شاعرہ بن نہیں رہا
چارہ نہیں کوئی عبیرؔ منت غیر کے سوا
چہرہ بہ چہرہ بھی اگر واسطہ بن نہیں رہا