قرۃ العین حیدر

’’کنڈیرا کو اپنے بارے میں گفتگو کرنا سخت ناپسند ہے۔ وہ صحافی جواس کی زندگی کا حال بیان کرنے کے شائق ہیں، لامحالہ چند جانے پہچانے حقائق دہرانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اپنے بارے میں گفتگو سے احتراز کی خواہش بیشتر نقادوں کے اس رجحان کے خلاف ایک جبلی ردعمل معلوم ہوتی ہے جس میں وہ لکھنے والے کی تصانیف کا، اس کی سیاست کا، اس کی نجی زندگی کا مطالعہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کنڈیرا نے ایک بار نویل اوبزرویتور (Nouvel Observateur) کو بیان دیتے ہوئے کہا، اپنے بارے میں گفتگو کرنے کے خلاف نفرت ہی وہ شے ہے جو ناولی ٹیلنٹ کو غنائی (Lyric) ٹیلنٹ سے ممتاز کرتی ہے۔ اپنے بارے میں گفتگو کرنے سے انکار، چنانچہ چیزوں اور ہیئتوں کو توجہ کے ٹھیک مرکز میں رکھ دینے کا طریقہ ہے اور خود ناول پر حلقہ نظر ثبت کرنے کابھی۔‘‘ (کرستیاں سالموں، مترجمہ، محمد عمر میمن، آج کراچی، ۱۹۸۷ء)
(۱)ایوان اردو ’دہلی‘ جون ۲۰۰۳ء میں قرۃ العین حیدر کے عنوان کے ساتھ، قرۃ العین حیدر سے متعلق ایک ادبی تقریب کی روداد شائع ہوئی ہے۔ اس روداد کی چند ابتدائی سطریں حسب ذیل ہیں،’’جناب ملک راج آنند، جناب صدر، معزز خواتین و حضرات! آپ لوگوں نے میرے لئے جو باتیں کی ہیں، یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ اب میں کیا عرض کر سکتی ہوں۔ مجھے اپنے متعلق کچھ کہنا ہمیشہ بہت عجیب لگتا ہے۔ ابھی میں نے ایک ناول لکھا ہے جس کا عنوان ہے ’’گردش رنگ چمن۔‘‘ اس میں ایک خاتون کا کیرکٹر ہے، جنہوں نے ۴۵ ناول لکھے ہیں اور ان کے چھیالیسویں ناول کی رسم اجرا ادا ہونے والی ہے۔ اس کے دعوت نامے چھپے ہیں۔ اس میں انہوں نے ایک تقریر کی، ’’میں اور میرا فن۔‘‘ اور اس کے بعدمختلف اور پروگرام ہوئے اور ہارپھول پہنائے گئے وغیرہ وغیرہ۔ تو ’’میں اور میرافن‘‘ قسم کی بات تو میں نے کبھی آج تک کی ہی نہیں۔ مجھے یہ چیزبڑی Funny لگتی ہے۔ بھئی بڑی آسان سی بات ہے۔ لکھتے ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے۔ شروع سے لکھ رہے ہیں، سب کو معلوم ہے۔ اچھا بھی لکھا ہے تھوڑا سا۔ کچھ معمولی بھی لکھا ہے۔ برا بھی لکھا ہے۔۔۔‘‘ (قرۃ العین حیدر)(۲)اپنے متعلق گفتگو سے شعوری گریز اور اپنی تحریروں کے سلسلے میں ہر طرح کی بیرونی شرطوں سے آزادانہ انداز نظر نے قرۃ العین حیدر کے معاملے میں کسی بھی لکھنے والے کے لئے خاصی آسانی اور اسی کے ساتھ ساتھ مشکل بھی پیدا کردی ہے۔ آسانی اس لحاظ سے ہے کہ ان کی کسی بھی تحریر کا جائزہ لیتے وقت لکھنے والا اوپر سے کسی تاکید، ہدایت اور نقطہ نظر کا پابند نہیں ہوتا۔ حقیقت کی تمام تر کھوج اپنے طور پر کرتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ذہنی اور جذباتی مآخذ کا سراغ کسی شرط کے بغیر لگا سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اسے قرۃ العین حیدر پر لکھتے وقت ایک ایسی مہم درپیش ہوتی ہے جس کی ایک ساتھ بہت سی جہتیں اور بہت سے دائرے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کی ہر تحریر، میلان کنڈیرا کی وضع کردہ ترکیب کے مطابق، ایک’’عظیم دانش ورانہ مرکب‘‘ ہوتی ہے۔تاریخ، سماجیات، اینتھرو پولوجی، علم الاآثار، آرٹ، فلسفہ، ثقافت، مشرق و مغرب کی ادبی روایات کے مطالعے سے قطع نظرقرۃ العین حیدر کے اپنے تجربے، مشاہدے اور تخیل کی دنیا بھی خاصی وسیع، پرپیچ اور رنگا رنگ رہی ہے۔ ان کی ہر تحریر موسیقی کے ایک پارے کی طرح مرتب ہوتی ہے جس میں ایک مرکزی موضوع کے ساتھ ساتھ اس کے کئی ذیلی اور ضمنی حوالے بھی حصےدار ہوتے ہیں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما جستجو، ایک مختلف الآثار وحدت کی تعمیر ہے جس کی بنیادوں تک رسائی کے لئے ان کے قاری کو بیک وقت متعدد راستوں سے گزرنے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ان کے تمام ناول غیرمعمولی علمی تحقیق اور چھان بین کا پتہ دیتے ہیں اور فکشن کی روایت میں اسے ایک نئے تخلیقی ضابطے، ایک نئی شعریات، ایک نئی فنی تشکیل کا اہتمام کہا جا سکتا ہے۔ قرۃ العین حیدر ناول اس طرح لکھتی ہیں جیسے ٹاؤن پلاننگ کے عمل سے گزر رہی ہوں۔ بڑے پیمانے پر ایک پوری بستی کا خاکہ ترتیب دے رہی ہوں اور اس بستی کے قیام کا مقصد، اصول اورمعیار بھی ان پر کسی جماعت، گروہ، نظریے کی طرف سے عائد نہیں ہوتے۔یہ ایک گہری وجودی اور شخصی سرگرمی کی سطح ہوتی ہے جس کی روایت نذیر احمد، شرر اور سرشار سے لے کر منشی پریم چندر تک اردو فکشن میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اپنے پیش روؤں میں قرۃ العین حیدر کی ولچسپی سب سے زیادہ شاید سرشار میں ہے اور اس کا ایک خاص سبب ہے۔ سرشار قصے کی صداقت پر کبھی بھی اخلاقیات کا، کسی اجتماعی نصب العین کا، سماجی مصلحوں اور معماروں کے زاویہ نظر کا بوجھ نہیں ڈالتے۔ وہ جہاں تک چاہتے ہیں سنجیدہ رہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ہنسوڑ بن جاتے ہیں۔ اپنے کرداروں کی تلاش میں کسی ایک خلقیے کے پابند نہیں ہوتے۔ کسی ایک طبقے کی زندگی تک ان کی اڑان محدود نہیں رہتی۔ سرشار کے یہاں ایک عالم کی متانت اور مؤرخ کے تفحص سے زیادہ ایک مہم پسند سیاح کی خوش طبعی، ایک کبھی نہ ختم ہونے والی ہوس سیر و تماشا کے رنگوں کی شمولیت کے باعث ہمیشہ ایک کھلی ہوئی فضا کا احساس ہوتا ہے۔قرۃ العین حیدر کے یہاں علمی تجسس اور تماش بینی کے عناصر باہم آمیز ہو گئے ہیں، اس حد تک کہ ان کے سنجیدہ سروکاروں سے ان کی خوش طبعی اور WIT کو الگ کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب مرکب ہے، جس کی تہہ سے ظہور پذیر ہونے والی دنیا صرف ہزیمتوں اور اداسیوں کی دنیا نہیں ہے۔ یہاں زندہ دلی، شگفتگی اور IRONY کے اظہار کی صورتیں بھی بار بار رونما ہوتی ہیں۔ ایک گمبھیر انسانی صورت حال کے تئیں یہ IRONICAL رویہ، قرۃ العین حیدرکے مجموعی شعو ر کا ناگزیر حصہ ہے۔

(۳)ابھی ذرا دیر پہلے ایک ادبی تقریب میں قرۃ العین حیدر کی جس گفتگو کا حوالہ دیا گیا تھا، اسی گفتگو میں قرۃ العین حیدر نے یہ بھی کہا تھا، ’’میرے سامنے جو مسائل ہیں وہ محض مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہیں۔۔۔ ساری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے میں بہت فکر مند ہوں۔۔۔ جو تشدد ہے۔۔۔ وائلینس جو ہمارے سائکی میں آ گیا ہے، جو یہاں بھی موجود ہے۔۔۔ کل میں نے ٹی وی پر دیکھا۔ آئرلینڈ میں مارا ماری ہوئی۔۔۔ بم پھینکے گئے۔۔۔ ہمارے یہاں بھی ہو رہا ہے۔۔۔ مطلب یہ کہ پوری دنیا میں وائلینس کا کلٹ (Cult) بن گیا ہے اور لوگوں نے اس کو قبول کر لیا ہے۔ یعنی اس کے بار ے میں لوگ پریشان نہیں ہیں۔ اس کو Accept کر لیا گیا ہے۔۔۔ جناب یہ ہر جگہ تو ہو ہی رہا ہے۔ کیا کریں۔ اب یہ جو رویہ ہو گیا ہے ادیبوں کا بھی کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ لیکن کوئی ہمارے قریب میں بم پھینک دے تو کیا کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے کچھ لکھ تو سکتے ہیں۔ کچھ پبلک اوپینین تو بنا سکتے ہیں اس کے بارے میں۔۔۔‘‘ (ایوان اردو، جون ۲۰۰۳ء)’’تشدد اس وقت ہمارے یہاں کی ایک حقیقت ہے۔۔۔ پورے ہندوستان کی اور پوری دنیا میں (اس وقت یہی) ہو رہا ہے۔ اب مصیبت یہ ہے اس قدر لوگ الفاظ سے الجھ جاتے ہیں اور ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ صاحب آپ کمیٹڈ رائٹر ہیں۔۔۔ کمیٹڈ رائٹر نہیں ہیں۔۔۔ آپ کا کمٹ منٹ کیا ہے۔ آپ کی کیا کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔۔۔ ایک کلیشے بن گیا ہے۔۔۔ لیکن ایک چیز ہوتی ہے ہیومنزم۔ اگر آپ بنیادی طور پر اس کو مان جائیں کہ سب انسان جو ہیں ان کو زندہ رہنا چاہئے۔ زندہ رہنے کا انہیں حق ہے۔ مارا ماری نہیں کرنی چاہئے او ر جو آپ کا کلچر ہے، آئیڈیالوجی ہے، جو آپ کے قومی نظریات ہیں وہ سب اپنے کرتے رہیے، لیکن اس طرح کیجئے کہ دوسرے کو نقصان نہ پہنچے۔ آپ باقی دنیا کو بھی حق دیجئے کہ وہ اپنے طریقے سے سوچ سکے اور اس کے بعد آپ اپنی حد تک اپنی ترقی کے لئے سوچئے۔۔۔‘‘ (حوالہ، ایضاً)وجودی انسان دوستی کا یہ رنگ قرۃ العین حیدر کی بنیادی پہچان کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سطح پر ان کا رویہ وہی ہے جو آج کی دنیا کے تمام اہم لکھنے والوں کارویہ کہا جا سکتا ہے۔ مذہب اور سیاست سے غیر متوازن وابستگی، شخصی اور قومی مفادات سے بے تحاشا شغف نے ہمارے چاروں طرف دہشت اور تنگ نظری کا جو ماحول پیدا کیا ہے، اس سے لاتعلق رہ کر ہم اپنے ادب اور اپنی تخلیقیت تو کیا، اپنی انسانیت کا تحفظ بھی نہیں کر سکتے۔ سلمان رشدی نے کہا تھا کہ ’’اگر ادیب دنیا کی عکاسی کا کاروبار سیاست دانوں کے حوالے کر دیں گے تویہ تاریخ کی بے حد ہولناک اور ذلیل ترین دست برداریوں میں سے ہوگا۔۔۔‘‘ ظاہر ہے کہ دنیا فرقہ پرستوں، مذہبی جنونیوں، سیاست کاروں کے سپرد نہیں کی جا سکتی اورنہ ہی کسی متعین مکتب فکر اور دستور العمل کی مدد سے اس کے مسئلوں کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ قرۃ العین حیدر پر گفتگو میں ذہن اس طرف یوں جاتاہے کہ (پاکستان کے) بعض معروف لکھنے والوں نے ان کے تخلیقی تصورات اور موضوعات کی تعبیر و تفہیم کے دوران قرۃ العین حیدر کے یہاں تہذیبی حوالوں اور ان کی اجتماعی یادداشت کے پس منظر میں خاص کر ’آگ کادریا‘ کے بعد منظر عام پر آنے والے افسانوں اور ناولوں کو، ایک بندھے ٹکے اور سکہ بند قسم کے قومی تصور کے مطابق سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔مثال کے طور پر فتح محمد ملک کایہ کہنا تو سمجھ میں آتاہے کہ ’’قرۃ العین حیدر نے ہمارے فکشن کو گہرے انداز سے سوچنا سکھایا۔‘‘ لیکن ان کا قرۃ العین حیدرکے یہاں حافظے کے عمل کو اقبال کی مجموعی فکر کے سیاق میں ’’آتش رفتہ کے سراغ‘‘ کاہم معنی قرار دینا، قرۃ العین حیدر کے بنیادی موقف کی نفی کرتا ہے۔ بے شک قرۃ العین حیدر کے افسانوں اور ناولوں کا ایک اہم عنصر عصر رواں کے شور شرابے اور انتشار کی فضا میں گم شدہ وقت کی تلاش سے عبارت ہے۔ یہ تلاش ہمیں انتظار حسین کے یہاں بھی دکھائی دیتی ہے لیکن زندگی کو اس کے رنگا رنگ اسالیب، سطحوں اور فصلوں کے ساتھ قبول کرنے والے کسی بھی ذمہ دار لکھنے والے کے یہاں اجتماعی یادداشت فرقہ وارانہ، مسلکی اور مکانی و مقامی بنیادوں پر استوار نہیں ہوتی۔مانوس و مخصوص حوالوں اور Culture-Specific ہونے کامطلب یہ تو ہرگز نہیں ہوتا کہ لکھنے والوں نے زندگی کی وسعت اور بو قلمونی کی طرف سے آنکھیں پھیرلی ہیں اور ان کے احساسات کا دریچہ اپنے گرد و پیش سے آگے کی واردات پر کھلتا ہی نہیں۔ جو وقت کسی کہانی یا ناول میں قصے کی بنیاد بنتا ہے وہ نہ تو صرف شخصی ہوتا ہے، نہ صرف اجتماعی۔ تاریخی واقعات، روایتیں، اساطیر، ثقافتی مظاہر اور رسوم مل جل کر وقت کا ایک مہیب سنیریو بناتے ہیں اور اس قصے کو ایک اسٹیج مہیا کرتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کا تخلیقی طریق کار یوں بھی امتزاجی ہے۔ اردو فکشن کی تاریخ میں قرۃ العین حیدر کے ناولوں کی جیسی وسعت، بہاؤ اور Range کہیں اور جو نہیں ملتی تو اس کا سبب بھی یہی ہے کہ پرانے داستان گو یوں کی طرح وہ بات سے بات نکالتی جاتی ہیں اور زندگی کے بہ ظاہر ایک دوسر ے سے مختلف اور غیر مربوط تماشوں کو ایک مالا میں پروتی جاتی ہیں۔اس وسعت خیال کی جڑیں انسانی علوم اور تجربات کی مختلف زمینوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ تاریخ سے مافوق التاریخ تک، حقیقت سے خواب تک اور واقعے سے دیو مالا تک رسائی کا یہ اسلوب کم سے کم اردو فکشن کے پس منظر میں، صرف قرۃ ا لعین حیدر سے مخصوص ہے اور اس سطح پر ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ شاید اسی لئے قرۃ العین حیدر کے اثر سے ان کے بعد کا کوئی قابل ذکر لکھنے والا مشکل سے ہی بچ سکا ہے۔ ان کا یہ اثر دو سطحوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک تو سوانحی ناول یا فیملی ساگا کے طور پر ناول لکھنے کا چلن جس نے پچھلے کچھ برسوں میں، بالخصوص ’کار جہاں دراز ہے ‘ کی اشاعت کے بعد سے خاصا زور پکڑا ہے اور Non-Fiction ناول کی ایک اچھی بری روایت اردو میں بھی قائم ہو چکی ہے۔ دوسرے قرۃ العین حیدر کے اسلوب کی تقلید کی روش، زیادہ تر سطحی قسم کی مماثلتیں پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر۔اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر کے تخلیقی سفر کی رفتار، ان کی تقلید کرنے والوں کے مقابلے میں ہمیشہ بہت تیز رہی ہے۔ چنانچہ ’ستاروں سے آگے ‘ اور ’شیشے کے گھر‘ کا استعاراتی اور علامتی اسلوب اور ان مجموعوں میں شامل کہانیوں کا غنائی اور نیم شاعرانہ آہنگ ہمارے یہاں ان مجموعوں کی اولین اشاعت (۱۹۴۷ء۔ ۱۹۵۴ء) کے بہت دنوں بعد ایک نئی حسیت کی تشکیل اور جدیدیت کے میلان کی اجتماعی قبولیت کے دور میں عام ہوا۔ ’ستاروں سے آگے ‘ اور ’شیشے کے گھر‘ کو اردو کی نئی کہانی کارول ماڈل اسی لئے کہا گیا ہے کہ ان کہانیوں میں، بہ قول محمود ایاز، انسانی روح کی تنہائی اور دکھ کے مسئلے کو معاصر عہد کی ذہنی اور جذباتی حقیقتوں کے سیاق میں پہلی بار ایک اجتماعی المیے اور آشوب کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔انسانی روح کی تنہائی، دکھ کی ازلی اور ابدی سچائی، وقت کا بوجھ اور جبریت، بکھراؤ اور موت کا ناگزیر تماشا جو ہر زندگی کا عقبی پردہ کہا جا سکتا ہے اور ہر انسانی جدوجہد کا انجام، یہ آرٹ اور ادب کی عمومی روایت کا آسیب یا OBESSIONS نہیں ہیں۔ انہیں انسانی ہستی کا محور کہنا چاہئے کہ زندگی کا ہر منظر نامہ اسی غم آلود دائرے کے گرد مرتب ہوتا ہے۔ بہ قول شوپن ہار، موت نہ ہوتی تو نہ فلسفہ وجود میں آتا نہ شاعری۔ انسان کا انفرادی اور اجتماعی وجود اسی بیک ڈراپ کے ساتھ اپنے ہزار شیوہ رنگوں کی نمائش کرتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی کے ادبی میلانات اسی حقیقت کے واسطے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایلیٹ کی خرابہ The Waste Land) جیمس جوائس کی یولیسس اس پورے دور کے شناختی نشان جو کہے گئے تو اسی لئے کہ تاریخ اور وقت کے ایک نئے شعور کی تشکیل اسی پس منظر میں ہوئی تھی۔اس دور کے ایک ادبی مؤرخ فریڈرک جے ہوف مین کے لفظوں میں ’’ادب اگر تاریخ کے لئے اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے تو اس لئے نہیں کہ اس کی حیثیت ایک سماجی دستاویز یا سیاسی اور فکری تاریخ کے فٹ نوٹ کی ہے، بلکہ اس لئے کہ ادب اپنے زمانے کے بنیادی مسئلوں اور سوالوں کی شناخت، تفہیم اور تعبیر کا ایک اعتبار کے قابل وسیلہ بھی ہے۔‘‘ قرۃ العین حیدر پر ایک اعتراض اکثر وارد کیا جاتا ہے کہ ان کے یہاں (خصوصاً ناولوں میں) تاریخ کا سایہ ضرورت سے زیادہ طویل اور تاریخ کا عمل دخل بہت نمایاں ہے۔ ایک مضمون (ایوان اردو، دہلی، اکتوبر ۱۹۹۱ء) میں قرۃ العین حیدر نے تاریخ کی طرف اپنے رویے کی بابت یہ وضاحت کی تھی کہ، ’’۔۔۔ جس قسم کے ناول میں لکھتی ہوں، ان کے لئے تو ریسرچ ظاہر ہے کہ بے حد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں مصوری، آرٹ، ہسٹری، آرکیالوجی اور موسیقی سے میری گہری دلچسپی اس چھان پھٹک میں معاون ثابت ہوتی ہے، یہ کون سی انوکھی بات ہے!‘‘(۴)ظاہر ہے کہ قرۃ العین حیدر سے پہلے، اردو ناول کی روایت میں اس رویے کے نشانات تقریبا ًمعدوم ہیں لیکن مغربی دنیا، جہاں ایک صنف کے طور پر ناول کے پاؤں جمے، وہاں تقریباً ہر بڑی زبان کے ادب میں اجتماعی تجربوں، روایتوں اور تاریخ و سوانح سے متعلق مآخذ نے ناول کے لئے بنیادی مواد فراہم کیا ہے۔ انگلستان کا صنعتی انقلاب، فرانسیسی انقلاب، روسی انقلاب، اطالوی نشاۃ ثانیہ کے بعد یورپ میں رونما ہونے والی ذہنی اور جذباتی تبدیلیاں، جنگیں اور انقلابات، جدید یورپ کی تخلیقی اور ادبی روایت سے ان سب کا تعلق بہت مستحکم ہے۔ کولونیل عہد کی ترجیحات اور تعصبات کے سلسلے میں ہمارا موقف جو بھی ہو، یہ واقعہ بہرحال مسلم ہے کہ ہمارے زمانے کی ادبی روایت پر مغرب اور مشرق کے امتیازات سے قطر نظر اور اردو کے تخلیقی معاشرے میں ہمارے اپنے ماضی اور اجتماعی تشخص کی بالادستی پر اصرار کے باوجود مغربی زمینوں سے ظہور پذیر ہونے والے ادبی تصورات اور قدروں نے بہت جلد ایک عالم گیر سچائی کی حیثیت اختیار کرلی۔معاصر ادب اور ادیبوں کے ایک بہت بڑے حصے پر مغربی فکر و فلسفہ اور فنی اسالیب اور تجربات کے اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ مغرب پرستی اور بدیسی رویوں سے غیر مشروط شغف بے شک معیوب ہے، لیکن مقامیت کے عناصر اور وطن دوستی کے جذبے کی زائیدہ خوش گمانیوں کا موقع بے موقع اظہار بھی، ایک طرح کی نفسیاتی بیماری ہے۔ بیسویں صدی، اپنی حشر سامانیوں کے باوجود بہرحال مغرب کی صدی ہے۔ ایک نئے مشرقی شعور اور طرز احساس کی تشکیل و تشخص کے بہت سے وسیلے بھی ہم تک مغرب ہی کی وساطت سے پہنچے۔ قرۃ العین حیدر کی ’’مشرقیت‘‘ ان کا اجتماعی ماضی، ان کے احساسات کے گرد کسی طرح کا حصار نہیں کھینچتے۔ چنانچہ ان کا شعور مشرق و مغرب کے محدود تصور کی گرفت سے حیرت انگیز حد تک آزاد ہے۔ان کی بصیرت یکساں آزادی کے ساتھ مشرق اور مغرب دونوں دنیاؤں میں سفر کرتی ہے۔ ان کا طرز احساس اور ان کے اسالیب اظہار نہ تو صرف مشرقی ہیں نہ صرف مغربی۔ اردو فکشن کی روایت میں قرۃ العین حیدر سے پہلے اور ان کے بعد بھی افکار اور احساسات کی یہ کشادگی کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ قرۃ العین حیدر نے ایک سی سہولت کے ساتھ مشرق اور مغرب دونوں کی ادبی روایات سے استفادہ کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اردو فکشن کے ممتاز ترین ترجمانوں میں بھی مغربی فکشن اور جدید مغربی فلسفوں اور ذہنی و تخلیقی روایتوں سے قرۃ العین حیدر کی جیسی واقفیت شاید کسی اور لکھنے والے کے حصے میں نہیں آئی۔(۵)قرۃ العین حیدر کے پہلے ناول ’میرے بھی صنم خانے ‘ کی اشاعت ان کے افسانوں کی کتاب ’ستاروں سے آگے ‘ کی اشاعت (۱۹۴۷ء) کے ٹھیک دو برس بعد (۱۹۴۹ء) میں ہوئی تھی۔ گویا کہ ان کے تخلیقی سفر کی روداد تقریباً اسی مدت پر پھیلی ہوئی ہے جسے آزاد ہندوستان کی تاریخ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس پورے عرصے کے تہذیبی اور تخلیقی کلچر پر تاریخ کا بوجھ بہت حاوی رہا ہے۔ ایک خاص طرح کے کولونیل طرز فکر (Mindset) کا دائرہ، پھر اس دائرے سے نجات کی ایک شعوری کوشش، آزادی اور تقسیم سے پہلے کی اجتماعی تاریخ اور معاشرت، پھرفسادات، ہجرتیں، ذہنی اور جذباتی جلاوطنی اور در بدری کا احساس، تنہائی اور گمشدگی کے سائے میں نئے سرے سے اپنی جڑوں کی تلاش، ایک نئے تکنالوجیکل تمدن کا آشوب، مغرب اور مشرق کے بنتے بگڑتے رشتوں کے سیاق میں اپنے تشخص کی جستجو اور پھر ایک نئی شناخت کا تصور، قومیت اور بین الاقوامیت، مقامیت اور انفرادی و اجتماعی سطح پر ایک عالمگیر انسانی صورت حال کی کشمکش۔غرض کہ ایک خاصا بھرا پرا عقبی پردہ ہے جس کے حوالے معاصر عہد کے فکشن میں، شاعری میں اورفنون لطیفہ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کی تخلیقی زندگی کے اہم نشانات یہ ہیں، آگ کا دریا (۱۹۵۹ء)، آخر شب کے ہم سفر (۱۹۷۱ء)، گردش رنگ چمن (۱۹۸۸ء)، ’چاندنی بیگم‘ (۱۹۸۹ء)، ’کارجہاں دراز ہے ‘ (۱۹۹۰ء) کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوی مجموعوں پت جھڑکی آواز (۱۹۶۷ء)، روشنی کی رفتار (۱۹۸۲ء) طویل کہانیوں یا ناولٹس دل ربا، سیتا ہرن، چائے کے باغ، اگلے جنم موہے بٹیانہ کیجیو، (چار ناولٹ ۱۹۸۹ء) اور ان کے سفرناموں، رپورتاژ، ترجموں، تبصروں سے لے کر ان کی حالیہ کتابوں (دامان باغباں۔ خطوط)، داستان عہد گل (مضامین)، کف گل فروش (تصاویرکامرقعہ) جواشاعت کے آخری مرحلے میں ہے اور جسے سوانحی ناول، کارجہاں دراز ہے کے سلسلے کا ایک حصہ سمجھنا چاہئے۔اس پورے سرمائے پر نظر ڈالی جائے تو ایک نہایت مصروف، سرگرم اور نتیجہ خیز تخلیقی زندگی کا خاکہ مرتب ہوتا ہے، ایک کل وقتی ادیب کی زندگی کا منظرنامہ، ایک پر پیچ اور طویل مسافت۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر کا یہ سارا سفر نہ تو سیدھا سادا سلسلہ وار رہا ہے، نہ ہی کسی معین، طے شدہ منزل کی طرف۔ راستے بھی پیچیدہ اور منزل بھی مبہم اور ناتمام۔ یہ ایک دائرے کا سفر ہے۔ چنانچہ کسی عام لکھنے والے کے ذہنی ارتقا کی قسم کا عنوان اس پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے زمانے کے فکشن لکھنے والوں میں قرۃ العین حیدر کے بعد دوسری واحدمثال انتظار حسین کی ہے جو تقریباً اسی طرح کے بے نام، تضادوں سے بھرے ہوئے، نیم روشن راستوں سے گزرنے کے بعد اپنے موجودہ تخلیقی منطقے تک پہنچے ہیں اور یہ منطقہ بھی ہرطرح کی ادعائیت اور قطعیت کے عنصر سے خالی ہے۔ تخلیقی آزادی، جسے تخلیقی تنہائی کی ہی ایک شکل سمجھنا چاہئے اور صرف اپنے اعصاب و احساسات کی منڈیر پر روشن چراغوں کی مدد سے اپنے آپ کو اور اپنی دنیا کو دیکھنے کی دیانت دارانہ کوشش، جس کا دائرہ ہماری پوری اجتماعی تاریخ کے گرد پھیلا ہوا ہو، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کی تخلیقات میں سب سے زیادہ نمایاں اور جلی خطوط میں دیکھا جا سکتا ہے۔برصغیر کی تقسیم سے لے کراب تک کی اجتماعی زندگی کا آشوب جس طرح ان دونوں کے یہاں اجاگر ہوا ہے، اس نے ان کے بعد کے لکھنے والوں کے لئے ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ یہ دو دبستاں ہیں ؛نئی حسیت کی تشکیل و ترسیل میں سرگرم اور بہت سے لکھنے والوں کے لئے۔ ان سے اتفاق اور اختلاف کی شعوری جدوجہد کے بغیر کسی نئی تصویر کا بننا محال ہے۔ شاید کوئی بھی نیا لکھنے والا ان سے صرف نظر کرکے آگے نہیں جا سکتا۔ ان دونوں پر ماضی پرستی اور نوسٹیلجیا کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور دونوں کے بارے میں یہ حقیقت بھلا دی جاتی ہے کہ کسی بھی ذمے دار اور سنجیدہ لکھنے والے کا ماضی صرف اس کا ماضی نہیں ہوتا۔ اجتماعی ماضی کو دونوں کے یہاں ایک مرکزی حوالے کی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی نیا لکھنے والا تاریخ کے تناظر کے ساتھ ا پنے تجربے کی روداد بیان کرنے کے لئے اٹھے گا، اس کی نظر لامحالہ ان کی طرف جائےگی۔ان میں قرۃ العین حیدر کا کینوس زیادہ وسیع اور دقت طلب ہے۔ انتظار حسین مینا تور بناتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر میورلزپینٹ کرتی ہیں۔ بڑے اسٹروکس کے ساتھ اور ایک کثیرالجہتی بلیو پرنٹ کے مطابق۔ اس بین فرق کے باوجود دونوں کے یہاں ایجازبیان، اشاریت اور فن کارانہ ضبط کے اوصاف مشترک کہے جا سکتے ہیں۔ انتظار حسین کے ناولوں ’بستی‘، ’تذکرہ ‘، اور ’آگے سمندرہے‘ کی مجموعی فضابہت مرتکز اور ان کی کہانیوں سے مماثل ہے۔ اس کے برعکس قرۃ العین حیدر کی کہانیوں میں بھی ان کے تخلیقی طریق کار اور طرز احساس کی بہتر ترجمانی ان کہانیوں سے ہوتی ہے جو طویل ہیں اور افراد کے بجائے تہذیبوں کو اپنا موضوع بناتی ہیں، Cultural Centric ہیں اور ایک طرح طرح کے مہم جو یا نہ سفر کی نشان دہی کرتی ہیں۔آئینہ فروشِ شہرکوراں، دریں گرد سوارے باشد، سیتاہرن، ہاؤسنگ سوسائٹی، قیدخانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے اور ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی، کرداروں سے زیادہ تاریخ کے کسی خاص مرحلے میں اجتماعی انسانی صورت حال، تہذیبوں اور معاشرتی لینڈاسکیپس پرمبنی کہانیاں ہیں۔ بنی اسرائیل، ہندو، بودھ، مسیحی، پارسی، اسلامی اور متصوفانہ روایات، رسوم، اساطیر، اقدار اور عقائد قرۃ العین حیدر کے یہاں پر اسرار کیمیاوی ترکیب کے عمل سے گزرنے کے بعد مہیب اور  پر جلال انسانی تجربوں کی تصویر بن جاتے ہیں۔(۶)وحید اختر نے قرۃ العین حیدر سے متعلق اپنے مضمون (آگ کا دریا پر وجودیت کے اثرات، مشمولہ اردو فکشن، مرتبہ آل احمد سرور) میں لکھا تھا،’’(یہ) پہلا اردو ناول ہے جو موجودہ عہد کے انسان اور اس کے مسائل وجود پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے۔۔۔ یہ ’اداس نسلیں ‘ سے قبل شائع ہوا تھا۔ اس ناول کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر نے ہزارں برس کے وسیع پس منظر کو ناول کے کینوس پر پھیلا دیا ہے۔ اس طرح ہندوستان کی کئی ہزار سالہ تاریخ، کلچر، فلسفے اور رسم و رواج اس دریا کی موجوں میں سمٹ آتے ہیں۔ اس لحاظ سے شاید دنیا کے ادب میں اپنی طرز کی پہلی اور منفرد کوشش ہے۔‘‘ گویا کہ جس طرح ’ستاروں سے آگے ‘ اور ’شیشے کے گھر‘ کی کہانیوں سے اردو کہانی میں استعاراتی اور علامتی اظہار کی داغ بیل اور اردو افسانے کی تاریخ میں روایتی بیانیہ سے آگے ایک نئے دستور نے رواج پایا، اسی طرح ’آگ کا دریا‘ کی اشاعت، ناول کی ہیئت اور مزاج میں ایک انقلابی تغیر کا سبب بنی۔ یہاں سے ناول کی ایک نئی پہچان اور ایک نئی تعریف مقرر ہوئی، ایک نئی شعریات کا ظہور ہوا۔ ’آگ کا دریا‘ کی وساطت سے ہمیں اس صنف کو اور اس عہد کو دیکھنے کا ایک نیاز زاویہ میسر آیا۔ اردو کے عام قاری کی رسائی اب اس حقیقت تک ہوئی کہ، ’’وقت اور تاریخ کے حضور کوئی آدمی غیر معمولی نہیں۔ سب اس کے ہاتھ میں کلدار کھلونے ہیں۔ سمراٹ چندر گپت ہوں یا کوٹلیہ، حسین شاہ شرقی اور شیر شاہ اور اکبر، سدھارتھ ہوں یا شنکرآچاریہ، ابن رشد ہوں یا فارابی اور ابن خلدون۔۔۔ یہ سب وقت کے دھارے میں بہہ چکے ہیں۔‘‘ (وحید اختر، حوالہ ایضاً)یعنی یہ کہ اس کہانی کی مالا میں جانے پہچانے کرداروں کے ساتھ ایک طاقتور اور فعال، بہ ظاہر خامو ش اور نادیدہ کردار بھی پرویا ہوا ہے اور کہانی جس حد تک ظاہر ہے، یہ کردار اتنا ہی مخفی ہے۔ یہ نادیدہ کردار ’میرے بھی صنم خانے ‘ سے ’چاندنی بیگم‘ تک ہر جگہ اپنے ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ ہرچند کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی وجود اور صورت حال کی بابت قرۃ العین حیدر کے زاویہ نظر میں تبدیلی بھی پیدا ہوئی ہے اور انسانی تجربوں کی تہہ میں تاریخ کی منطق سے زیادہ اب وہ (چاندنی بیگم میں) غیر متوقع واقعات، انہونیوں اور اتفاقات کی زیادہ قائل دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح ان کے ناولوں کا باطنی منظرنامہ بھی بدلا ہے اور ان کی ہیئت، حیثیت اور ظاہری صورت بھی ویسی نہیں رہی جس کی بنیاد پر کرشن چندر اور عصمت چغتائی نے انہیں مورد الزام ٹھہرایا تھا۔’چائے کے باغ‘، ’دل ربا‘، ’اگلے جنم موہے بٹیانہ کیجیو‘، ’آخر شب کے ہم سفر‘، ’چاندنی بیگم‘ کے کرداروں کا طبقاتی نقشہ اور پس منظر بالکل مختلف ہے۔ وہ اشرافی اور نفاست آمیز تراشیدہ رویے جن سے قرۃ العین حیدر کی ابتدائی تحریریں صاف پہچانی جاتی تھیں، ان کی جگہ اب ایک جمہوری زاویہ نظر اور تکلف یا پیچ سے عاری اسلوب نے لے لی ہے۔ معاصر عہد کے اخلاقی زوال، تہذیبی ابتذال، صارفیت، تشدد، فرقہ واریت اورڈی ہیومنائزیشن کے ایک مسلسل اور متواتر عمل کے نتیجے میں روز بروز بڑھتی ہوئی سنگ دلی اور جارحیت، بدمذاقی اور بدہیئتی اب قرۃ العین حیدر کے نئے انسانی سروکار اور توجہ کے مراکز بن گئے ہیں۔ نچلے طبقوں کی عورتیں اور مرد، روزانہ اجرت پر کام کرنے والی گھریلو لڑکیاں، گانے بجانے والے، مزدور اور کاریگر، (ڈی ہیومنائزیشن) ان کی تخلیقات میں ایک بالکل ہی مختلف منظریہ مرتب کرتے ہیں۔اپنے حافظے کا استعمال قرۃ العین حیدر کبھی نئی حقیقتوں کی پیمائش کے وسیلے کے طور پر کرتی ہیں، کبھی موجودہ صورت حال کی ابتری اور ابتذال کے خلاف ایک احتجاج کے طور پر۔ ماضی کو بھول جانا اپنے آپ کو کھو دینے کے مترادف ہے۔ جس طرح تاریخ ایک زندہ مظہر ہے، اسی طرح ماضی کی بھی ایک جیتی جاگتی حقیقت ہوتی ہے۔ عراق پر امریکی جارحیت کے حالیہ واقعات کے سیاق میں اپنے ایک مضمون کا خاتمہ بھاسکر گھوش نے میلان کنڈیرا کے اس اقتباس پر کیا ہے کہ ’’اس اقتدار کے خلاف عوام کی جدوجہد دراصل فراموش کاری کے خلاف حافظے کی جدوجہد کہی جا سکتی ہے۔‘‘ماضی کو یاد کرنا دراصل حال سے اپنی بے اطمینانی کو ظاہر کرنا ہے۔ اسی لئے ’’حال مست‘‘ اور ’’کھال مست‘‘ اشخاص ماضی کو زندہ رکھنے کی ہر کوشش میں اپنی تباہی کے آثار دیکھتے ہیں۔ یہ گمان کہ صرف حال حقیقت ہے یا موجودہ حقیقت کے سوا، کسی اور حقیقت کا وجود نہیں، ایک طرح کی تہذیبی سیاست اور نفسیاتی بیماری ہے۔ ماضی کا احساس، بہ قول لائنل ٹرلنگ بڑے لکھنے والوں کو ایک اخلاقی موقف بھی فراہم کرتا ہے، اسی لئے دنیا بھر کے ادب میں ’’گم شدہ وقت کی تلاش‘‘ کو ایک مستقل تخلیقی رویے کی حیثیت سے بھی دیکھا گیا ہے۔ ’’ماضی کا احساس‘‘ خطرناک صورت اختیار کرتا ہے لیکن صرف اس وقت جب یہ احساس سیاست کی گرفت میں آ جاتا ہے اور سیاست داں اسے اپنی مصلحت اور ضرورت کے مطابق ایک خاص شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔تاریخ کو باربار نشانہ بنانے کی کوشش، جو اقتدار کی سیاست کا ایک بنیادی ایجنڈا بھی کہی جا سکتی ہے، یہ کوشش صرف اس لئے کی جاتی ہے کہ ماضی اور تاریخ ہمارے شعور کے افق سے کبھی غائب نہیں ہوتے۔ سیاست داں ماضی کو اس لئے بدلنا چاہتا ہے کہ وہ مستقبل کو بدلنا چاہتا ہے۔ تاریخ کے گھاؤ اسے پریشان کرتے ہیں، مشتعل کرتے ہیں، اسے محجوب اور منفعل کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ تاریخ کو مسخ کرکے اسے ایک من مانے روپ میں دیکھنا اور دکھانا چاہتا ہے۔ ’’تخلیقی شعور‘‘ کا حصہ بننے کے بعد ماضی کا احساس اور تاریخ، حال کے جبر سے بچاؤ کا ایک سادھن، ایک مزاحمتی وسیلہ، ایک اخلاقی قدر اور گردوپیش کے طوفان بے تمیزی میں ایک دارالامان بھی بن جاتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں اپنے حافظے اور تاریخ سے جتنی گہری اور پر پیچ سطح پر یہ کام لیا ہے، اسے سمجھے بغیر نہ تو ان کے تخلیقی تناظر کی فہم ممکن ہے نہ ان کے عدیم المثال بیانیہ کی بنت کو سمجھا جا سکتا ہے۔(۷)اب یہاں قرۃ العین حیدر کی مختلف تحریروں سے یہ تین اقتباسات بھی دیکھتے چلیں۔ ایک گفتگو کے دوران انہوں نے کہا تھا، ’’میں نے تو یہ مونولوگ، درون ذات کا انعکاس، شعور کی رو اور تجریدی خیال آرائی وغیرہ سے ان دنوں استفادہ کیا تھا، جب ۱۹۴۰ء میں میری کم عمری کا زمانہ تھا۔ ’ستاروں سے آگے ‘ میں میری کہانیاں اسی نئے پن کا عکس پیش کرتی ہیں۔ ان میں ایسے تمام خیالات ملتے ہیں جو اردو میں دوسری نسل کا موضوع بنے۔ میرے لئے تو اب یہ سب کچھ قصہ پارینہ ہے۔ایک مشہور نقاد نے مجھ سے اعتراضاً کہا تھا کہ’آخر شب کے ہم سفر‘ پیور ناول نہیں ہے۔ ’آگ کا دریا‘ کو ٹوٹل ناول نہیں کہا گیا، کیوں کہ یہ اصطلاح اس وقت یہاں غالباً نہیں پہنچی تھی۔ ’کارجہاں دراز ہے ‘ بھی مغربی تنقید کے بہت سے نظریوں کی کسوٹی پر کسا گیا۔ پورا نہ اترا۔ کہیں فٹ نہ بیٹھا۔ اس وقت تک۔ Non-Fiction ناول بھی شاید کسی نے نہیں سنا تھا بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے Roots نے انسپائر کیا ہے۔ حالانکہ وہ Roots کی اشاعت سے پہلے لکھا تھا۔ اس کہانی کی داغ بیل میں نے یلدرم کی وفات کے چند روز بعد ہی ڈال دی تھی اور مدتوں بعد اس پر باقاعدہ کام شروع ہو گیا۔ یہ میری والدہ کی ادبی روایت تھی جنہوں نے ۱۹۴۲ء میں اپنے حالات زندگی بڑے دلچسپ انداز میں بطور روزنامچہ لکھنے شروع کئے تھے۔۔۔‘‘اور ذیل کا اقتباس ان کے ایک مضمون سے ماخوذ ہے (مطبوعہ ایوان اردو، اکتوبر ۱۹۹۱ء)’’میرے لئے فیوڈل طبقے کی نوحہ خوانی کا جو لیبل یہی حضرات پچھلے دور میں لگاگئے، وہ نقادوں کی ہر پیڑھی اور ہر مدرسہ کو منتقل ہوتا گیا۔ چنانچہ ’چاندنی بیگم‘ کی خالص عصری مسائل کی کہانی بھی ان کو ماضی کی نوحہ خوانی معلوم ہوئی کیونکہ وہ ماضی کو حال سے مربوط دیکھنا نہیں چاہتی۔‘‘ (بحوالہ قرۃ العین حیدر ایک مطالعہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۱۹۹۲ء)واقعہ یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر کی تخلیقات کے ذہنی اور جذباتی مآخذ کی طرح ان کے اسٹرکچر اور ان کی فنی حکمت عملی کے انداز اور اسالیب بھی قاری پر یہ شرط عاید کرتے ہیں کہ وہ خود قرۃ العین حیدر کی قائم کردہ شرطوں پر ان تخلیقات کے مفہوم اور مطلب تک پہنچے۔ ہمارے یہاں فکشن کی تنقید بالعموم بہت بندھے ٹکے ضابطوں کی پابند رہی ہے۔ اس کا عام سبب یہی رہا ہے کہ انیسویں صدی میں نذیر احمد سے رسوا تک ناول کی جو روایت مرتب ہوئی تھی، بیسویں صدی میں پریم چند، عزیز احمد اور ۱۹۳۶ء کے انقلابی میلانات کے ساتھ آراستہ ہونے والی ترقی پسند ادیبوں کی نمائندہ صف کے کارناموں کے باوجود اس میں کچھ خاص فرق نہیں آتا۔ وارث علوی کی یہ شکایت کہ اردو فکشن کا دامن بڑے ناولوں سے خالی ہے، بڑی حد تک درست ہے۔ یورپ کے جدید دور کے ادب سے ہٹ کر بھی ہندوستان کی زبانوں میں ناول کا جو سرمایہ سامنے آیا، اس میں فکری گہرائی اور تخلیقی رنگارنگی کے نشانات اردو کی بہ نسبت کہیں زیادہ روشن اور وقیع ہیں۔ہمارے یہاں پریم چند، منٹو، بیدی، عصمت، کرشن چندر، عزیز احمد، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی، علی عباس حسینی، حیات اللہ انصاری نے افسانے کی سطح بے شک بہت بلند کی اور ایسی کئی کہانیاں وجود میں آئیں جو عالمی معیار کی کہانیوں کے ساتھ رکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن یہی بات قرۃ العین حیدر یا ان سے پہلے لکھے جانے والے ناولوں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ (امراؤ جان ادا اور گئودان کی حیثیت استثنائی ہے) ہمارے مشہور ناولوں کی دنیا اس دنیا کی بہ نسبت بہت محدود اور کم عیار دکھائی دیتی ہے جس کی تشکیل فرانسیسی، جرمن، روسی اور انگریزی ناول کے مشاہیر نے کی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ قرۃ العین حیدر سے پہلے ہمارے بیشتر ناول نگار مغربی ناول کی سطح اور معیار کے مضمرات سے اچھی طرح واقف نہیں تھے۔ دوسری یہ کہ بڑا ناول لکھنے کے لئے جو منصوبہ بندی، اہتمام اور ریاضت درکار ہوتی ہے اس کا بار اٹھانے کی سکت ان میں نہیں تھی۔غزل کے شعر کا جادو دوچار تخلیقی شراروں کی مدد سے بھی جگایا جا سکتا ہے اور اکا دکا اچھے شعر معمولی تخلیقی بساط رکھنے والوں پر بھی نازل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہر شاعر رزمیہ اور طویل نظم تو نہیں لکھ سکتا۔ شاید اسی لئے مختصر افسانے کی ایک روایت تو ہمارے باکمالوں نے قائم کر دی اور دوسری صف کے افسانہ نگاروں نے بھی اس کاسلسلہ برقرار رکھا، لیکن ناول کے معاملے میں یہ مرحلہ شوق سہل نہ تھا۔ قرۃ العین حیدر نے اردو ناول کی تاریخ میں جو اجتہادی رول ادا کیا ہے اس کی جہتیں کثیر بھی ہیں اور مشکل بھی۔ اسی لئے سنجیدگی کے ساتھ ان کی تقلید کرنے والوں میں بھی جمیلہ ہاشمی کے دشت سوس، نثارعزیزبٹ کے کاروان وجود اور خدیجہ مستور کے ’آنگن‘ کے سوا، کسی اور ناول کا چراغ نہیں جلا۔ یوں تو کچھ نیم خواندہ خواتین حتی کہ بعض نئے فکشن نگاروں نے بھی قرۃ العین حیدر کی کچی پکی نقل اس طرح اتارنے کی جستجو کی کہ انگریزی کے کچھ غلط سلط لفظ اور محاورے اپنے جملوں میں ٹانک دیے اور کچھ پارٹیوں وغیرہ کا ذکر کر دیا۔خصوصا ً ’’آگ کا دریا‘‘ کی تقلید کا میلان نئے لکھنے والوں کے یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تقلید اردو سے آگے ہندی میں بھی نظر آئی جہاں اردو کی بہ نسبت ناول کی صنف نے پچھلے چند برسوں میں زیادہ ترقی کی ہے اور کچھ بہت اچھے ناول لکھے گئے ہیں۔ تاہم یہ واقعہ اردو ناول کی تاریخ کے سیاق میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کہ ہمارے زمانے کے سب سے زیادہ قابل ذکر ناول (اداس نسلیں، لہو کے پھول، بستی، تذکرہ، بہاؤ، علی پور کا ایلی) آگ کا دریا کی اشاعت کے بعد لکھے گئے اور یہ قرۃ العین حیدر کے بالواسطہ اثر سے آزاد نہیں ہیں۔ آج بھی اردو کے ناول نگاروں کی اکثریت، بہ قول چودھری محمد نعیم، ’’تاریخ، حافظے، افسانہ اورحقیقت کے اسی دائرے‘‘ میں گردش کرتی ہوئی نظر آتی ہے جو قرۃ العین حیدر سے منسوب ہے۔تقلید اور پیروی کا یہ رویہ ناول سے زیادہ افسانے میں برگ و بار لایا۔ انور غالب کی تخلیقات اپنے بعض امتیازات کے باوجود بہت کم معروف ہوئیں۔ البتہ نکہت حسن اور خالدہ حسین کی کہانیوں میں جو خیال انگیز داخلی منظر کشی، حاضر و غائب کو ملانے کی جو کامیاب کوشش اور زبان و بیان پر جو تخلیقی گرفت دکھائی دیتی ہے، اس سے یہ توقع وابستہ کی جا سکتی تھی کہ انہوں نے اگر ناول کی صنف کو بھی برتا ہوتا تو قرۃ العین حیدر کی روایت کے کچھ نئے گوشے منور ہو سکتے تھے۔قرۃ العین حیدر ادب میں لیڈیز کمپارٹمنٹ کی قائل نہیں ہیں اور اردو فکشن کی روایت میں ان سے پہلے حجاب امتیاز علی اور عصمت چغتائی نے اور ان کے بعد ہاجرہ مسرور، فہمیدہ ریاض، زاہدہ حنا، جیلانی بانو، ذکیہ مشہدی اور ان سب سے قطعاً مختلف خالدہ حسین نے کم یاب محاسن سے مالامال جس بیانیہ اسلوب کی تعمیر کی ہے اس پر نسائیت کا ایک خاموش رنگ حاوی ہے۔ نسائی حسیت بیانیہ اسالیب سے ایک خلقی مناسبت رکھتی ہے، چنانچہ بعض تقریبا ًگم نام خواتین (مثلاًسکینہ جلوانہ) نے بھی انتہائی فطری بہاؤ کے ساتھ اپنے مشاہدات افسانے کے طور پر مرتب کئے ہیں۔ (صحرا کی شہزادی) اور کہانی لکھنے کی بہ ظاہر کسی ارادی کوشش کے بغیر اچھی کہانیاں لکھی ہیں۔ کہانیاں اور قومی ثقافتیں بالعموم ایک علامتی رشتے میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں اور جیسا کہ میناکشی مکرجی نے ہندوستانی ناول کے ایک جائزے کے دوران کہا تھا، تمام بیانوں کو اسی لئے ایک مخصوص زمانے اور ثقافتی پس منظر کے سیاق میں پڑھا جانا چاہئے۔ یہ پس منظر مرتب ہوتا ہے روزمرہ زندگی کی صورت گری کرنے والی اشیا اور ناموں کے حوالے سے جن پرنسائی حسیت اور شعور کی گرفت نسبتاً زیادہ مستحکم ہوتی ہے۔ خیریہ ایک ضمنی اشارہ تھا لیکن اسی سلسلے میں ایک بات جو اکثر بھلا دی جاتی ہے، یہ ہے کہ کسی بھی بیانیے کی تشکیل تو بےشک ایک خاص ثقافت کے پس منظر میں ہوتی ہے، مگر اس ثقافت کی تعمیر اور اس کے مفہوم کے تعین میں وہ بیانیہ بھی بہرحال معاون ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے قرۃ العین حیدر کی کہانیوں اور ناولوں کا رول بہت مؤثر رہا ہے۔فتح محمد ملک کا یہ قول کہ ’’ایک مدت کے بعد قرۃ العین حیدر ہمارا اجتماعی حافظہ بن کر نمودار ہوئی ہیں۔‘‘ اسی حقیقت کے ادھورے ادراک پر مبنی ہے۔ ادھورا اس لئے کہ ’’اپنے اجتماعی حافظے‘‘ کی حدبندی وہ ایک طرح کے نیم سیاسی اور علاحدگی پسندانہ رویے کی رہنمائی میں کرتے ہیں جبکہ قرۃ العین حیدر اپنی بصیرت میں ارتقا اور تبدیلی کے کچھ ناگزیر اشاروں کے باوجود اپنے تہذیبی تناظر کو نہ تو محدود کرتی ہیں اور نہ اس وسیع المشرب امتزاجی زاویہ نظریہ سے دست کش ہوتی ہیں جو میرے بھی صنم خانے سے لے کر شاہ راہ حریر تک ان کی تمام تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔(۸)آج قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر ہم جس انسانی صورت حال سے دوچار ہیں، اس کے پیش نظر موجودہ ماحول کے درجہ حرارت کو نظرانداز کرکے ادیب ہونا تو دور رہا، اپنی عام انسانی حیثیت کے ساتھ بھی ہم انصاف نہیں کر سکتے۔ ایپاپینکر (ملیالم ادیب) نے عصری شاعری اور معاشرتی زندگی کے رابطوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ادب کا حال ایک تھرمومیٹر جیسا ہے جو درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ کو ریکارڈ کرتا ہے۔‘‘ قرۃ العین حیدر کی تخلیقات میں ہم بیک وقت انسانی ادراک کی دو سطحوں سے روشناس ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ بہ حیثیت ایک فرد کے ہمارے وجود کی سچائی کیا ہے۔ دوسری یہ کہ مظاہر کا یہ سارا سلسلہ جو ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے، اس کے توسط سے ہم اپنے زمانے کی کن سچائیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔اس طرح کسی بھی عصر شناس فن پارے کی طرح، قرۃ العین حیدر کی تخلیقات کے آئینے میں بھی، ہمیں ایک ساتھ دو پرچھائیاں نظر آتی ہیں، ایک تو موجودہ دنیا کی پر چھائیں، دوسری خود اس شخص کی پرچھائیں جو دنیا کو دیکھ رہا ہے۔ بہ قول شخصے جب ہم کسی شے یا کسی مظہر کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ شے اور وہ مظہر بھی ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس طرح دیکھنا، دیکھا جانا بھی ہے۔ اردو کے معاصر فکشن میں ان دونوں سطحوں پر بھی قرۃ العین حیدر کے ادراک کا موازنہ ہم بس اکا دکا لکھنے والوں سے کر سکتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے کبھی کسی خاص تکنیک کو اپنا شناس نامہ نہیں بنایا۔ شعور کی رو اور آزاد تلازمہ خیال کی ترکیبیں بھی پتہ نہیں کن اسباب کی بنا پر ان کے پیرایہ اظہار سے جوڑ دی گئیں۔ وہ نہ تو کسی خاص تکنیک کی پابند ہیں نہ کسی معینہ اصول تحریر کو سامنے رکھ کرکسی خاص تھیوری کے مطابق لکھتی ہیں۔ اس نکتے کی وضاحت کے لئے ان کا حسب ذیل بیان ہمارے سامنے ہے کہ،’’لکھنا ایک ما بعدالطبیعاتی فعل ہے۔ اس طرح لکھنا جیسے صفحے پر بارش ہو رہی ہو۔ ادراک، اکتساب، تجزیہ، تشریح، ترجمانی، اطلاع، خبر رسانی۔۔۔ یہ سب ایک عمل میں شامل ہے۔ کوئی ایک معمولی سا واقعہ، پھولوں کی شاخ، گلی میں اکیلا کھڑا ہوا بچہ، رات کے وقت سنسان سڑک پر سے گزرتی ہوئی روشن بس، خزاں کی ہوائیں، دور کی موسیقی، دوپہر کے سناٹے میں کمرے کا سنہرا رنگ اور آپ ایک نئے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں اور ساری دنیا، ساری کائنات کا تجزیہ کوئی بھی نہیں کر سکتا، مگر تلاش کسی ایک نکتے سے تو شروع کی جا سکتی ہے۔‘‘ (داستان عہد گل ص ۱۰۲۔ ۱۰۱)یاد کیجئے ۱۹۶۰ء کے بعد علامتی اور تجریدی افسانے کی منصوبہ بند نشوونما کے ابتدائی دور میں نئے ڈھب کی ان کہانیوں کے واسطے سے یہ دعویٰ پیش کیا جا رہا تھا کہ یہ دور شاعری اور فکشن کی حد بندیوں کے انہدام اور بہ ظاہر دو یکسر مختلف اسالیب کے انضمام کا دور ہے۔ کچھ انتہا پسند فکشن لکھنے والوں نے جوش اجتہاد میں شاعری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور نئی کہانی کونہ کہانی رہنے دیا، نہ شاعری۔ تخلیقی آزادی سے یہ مطلب نکالنا کہ لکھنے والا کسی ضابطے کا پابند نہیں ایک طرح کی تخلیقی انار کی اور آوارہ گردی کو راہ دینا ہے۔ اس رویے نے نئی کہانی کو نامقبول اور مضحک بنانے میں جو خدمت انجام دی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ سارتر نے وابستگی کے ادب کی تعریف کرتے ہوئے فکشن اور شاعری کے مابین جو حد امتیاز کھینچی تھی اس سے اختلاف رکھتے ہوئے بھی ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ تجرباتی اسالیب کے مطالعے میں بھی کسی نہ کسی حد کو قبول کرنا پڑتا ہے۔چنانچہ ایسا فکشن جس میں اظہار کے پیرایے کو بے حساب چھوٹ دے دی گئی ہو، بالآخر آپ اپنی خرابی کا سبب ٹھہرا اور نتیجہ یہ ہوا کہ نیا فکشن پڑھنے والوں کا حلقہ سمٹتے سمٹتے تقریباً معدوم ہو گیا۔ انور سجاد اور مین را نے (انور سجاد کا مجموعہ آج، مین را کا افسانوی سلسلہ کمپوزیشن سیریز) نثر کی صنف میں شاعری کے وسائل سے جو مدد لی تھی، اس کے امکانات بہرحال محدود تھے اور کہیں نہ کہیں ان کی ایک حد مقرر ہونی ہی تھی۔ اب یہ سارا سرمایہ ہماری روایت سے زیادہ ہمارے ماضی کی میراث بن کر رہ گیا۔ قرۃ العین حیدر کی ابتدائی کہانیوں (ستاروں سے آگے، شیشے کے گھر) سے لے کر ان کی حالیہ کہانیوں اور ’کارجہاں دراز ہے‘ کی تیسری جلد، ’شاہراہ حریر‘ کے مختلف ابواب تک ہمیں ایک ہی سلسلے کا سراغ ملتا ہے۔یعنی کہ بیانیہ کا ایک ایسا اسلوب جوبیک وقت نثر اور شعر دونوں کے وسائل ترسیل پر حاوی ہو، جوبہ ظاہر شاعرانہ ہوتے ہوئے بھی نثر بلکہ بیانیہ نثر کے تقاضوں سے روگردانی کا مرتکب نہ سمجھا جائے، جس میں بلاغت اور ایجاز تو ہو لیکن عام انسانی صورت حال کی زمین پر جس کی بنیادیں جمی ہوئی ہوں تاکہ اپنے قاری کے لئے وہ ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہ ہونے دے۔ قرۃ العین حیدر کی تخلیقی زندگی کے پورے سفر پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی ایک اسلوب بیان، ایک تکنیک اور کسی ایک بیانیہ اسٹرکچر کی پابند نہیں رہیں۔ ان کی ابتدائی کہانیوں میں اور بعض مقامات پر ان کے ناولوں میں شاعرانہ زبان اور بیان کی مثالیں بے شک ملتی ہیں لیکن انہوں نے بیانیہ کے کردار کو کبھی بھی مسخ نہیں ہونے دیا اور شاعرانہ عناصر سے کبھی کبھی اپنی نثر کو آراستہ کرنے کے باوجود، نظم اور نثر کے فرق کو باقی رکھا ہے۔ مثال کے طور پر ’کارجہاں دراز ہے‘ کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ،میں دشت لوط کے کنارے کھڑا ہوں۔کس طرف جاؤں؟موت کہیں بھی کسی راستے سے آسکتی ہے!ریت پر لکھے ہوئے نام بہت جلد مٹا دیے گئے ہوں گےیا پانی کی موجیںانہیں کھا گئی ہوں گی۔۔۔یہ واقعے یا صورت حال یا داخلی تجربے کے بیان کی غیر روایتی شکل ہے لیکن یہ شاعری نہیں ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’کوئی بھی تخلیقی ادیب تھیوریز اپنے سامنے رکھ کر نہیں لکھتا۔‘‘ اس حقیقت کی نشاند ہی کرتا ہے کہ ہر تجربے کا بیان اپنے اسلوب کی تعیین میں لکھنے والے کی آزادانہ روش کا پابند ہوتا ہے اور اس کے اسلوب کی تشکیل اس کی تخلیقی احتیاج کی روشنی میں ہوتی ہے۔ بعض اسالیب بہت پر فریب ہوتے ہیں اور ان کی حقیقی بنیادوں تک رسائی یا ان کی شناخت آسان نہیں ہوتی۔اس عہد کے لکھنے والوں میں قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کے علاوہ محمد خالد اختر، نیر مسعود، اسد محمد خاں، مسعود اشعر، حسن منظر اور اکرام اللہ کے یہاں بھی اشاریت اور بلاغت کا پہلو بہت اہم ہے۔ یہ کبھی بھی اپنی بات اعلانیہ نہیں کہتے۔ ایسی فضا مرتب کرتے ہیں اور کسی مخصوص انسانی صورت حال کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچتے ہیں کہ اس کی ظاہری اور باطنی جہتیں خودبہ خود روشن ہوتی جاتی ہیں۔ آئس برگ کی طرح ان کی کہانیوں میں پانی کی سطح کے اوپر جتنا کچھ نظر آتاہے، اس سے بہت زیادہ پانی کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے۔’جب کھیت جاگے‘ (کرشن چندر) کے تعارف میں سردار جعفری نے لکھا تھا کہ کرشن چندر ایک ’’بے ایمان شاعر‘‘ ہے جو افسانہ نگار کا روپ بدل کر سامنے آتا ہے اور نثر میں ایسے شعر کہہ جاتاہے کہ ہم جیسے شاعر اس کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کرشن چندر کی نثر میں شاعری کے وسائل کا استعمال بالعموم ایک بین اور کھلی ڈلی سطح پر ہوتا تھا، اسی لئے ان کی انشا پردازی کبھی کبھی کہانی کے ماحول میں مداخلت کا سبب بھی بنتی تھی۔ قرۃ العین حیدر کے اسلوب میں لفظ کی مبہم اور مخفی جہتوں کی موجودگی کا احساس ہمیں اس طرح ہوتا ہے جیسے کہ شاعری میں۔ انتظار حسین اسی طرح داستانی، اساطیری اور ملفوظاتی آہنگ سے کام لیتے ہیں، حقیقی اور موجود مسئلوں اور تجربوں کے بیان میں، لیکن ان دونوں باکمالوں کے یہاں زبان اور اسلوب اپنا بھید دھیرے دھیرے کھولتے ہیں، شور نہیں مچاتے، پوری طرح سامنے نہیں آتے اوران کی گرفت میں آنے والا ہر تجربہ کچھ کہا، کچھ ان کہا (unsaid) رہ جاتا ہے۔(۹)ترقی پسند تحریک کے عہد عروج (۱۹۴۶ء) میں قرۃ العین حیدر نے رومان اور حقیقت کے مباحث کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا، ’’رومان کو فراری ادب ماننے سے مجھے انکار ہے۔ افکار کا کینوس قومی جنگ اور سرخ سویرا کی حدود سے زیادہ وسیع ہوتا ہے!‘‘ محمد حسن عسکری نے اپنے بے مثال مضمون ’’فن برائے فن‘‘ میں بھی اسی نکتے کی وضاحت کی تھی کہ زندگی اور آرٹ کے تعلق کا مسئلہ اتنا سہل نہیں کہ کسی کلیشے کی مدد سے حل کر لیا جائے۔ قرۃ العین حیدر کے اس قول کی شہادت کے آثار ہمیں اس نام نہاد رومانی (رومانوی؟ ) تحریک سے وابستہ ادیبوں کے یہاں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ (سلطان حیدرجوش، سجاد حیدر یلدرم، نیاز، مجنوں، ل۔ احمد اکبرآبادی، مہدی افاوی، سجاد انصاری وغیرہ) جن پر ایک زمانے میں رومانیت کی اور حقیقت سے فرار کی تہمت عاید کی گئی، لیکن جو اپنی فکری حوصلہ مندی، اپنے اضطراب آمیز شعور، اپنے انسانی سروکار اور سوشل کمٹ منٹ کے لحاظ سے بے حد انقلابی تصورات کے مالک تھے۔عسکری صاحب نے اپنے ایک اور مضمون ’’ہیئت یانیرنگ نظر‘‘ میں ہمیں ان خطروں سے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی تخلیقی ہیئت کے مضمرات کو سمجھے بغیر اس کے ظواہر پر ضرورت سے زیادہ توجہ اور اعتماد کے باعث رونما ہوتے ہیں۔ یہاں ا س واقعے کا خیال اسی لئے آیا کہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ سے لے کر’’شاہراہ حریر‘‘ تک قرۃ العین حیدر کے یہاں ایک زیرزمین لہر جس کے ارتعاشات ان کا ہر قاری محسوس کرتا ہے، اس پر پیچ اور مرموز رویے سے مربو ط ہے جسے ہم رومانیت کا نام دیتے ہیں اور جس کی تعبیر میں اردو کی روایتی تنقید ہمیشہ سے غلطیوں کا شکار ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک طولانی بحث ہے اور اس پر سیر حاصل گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے۔ البتہ اس مضمون کے اختتامیے میں گابریل گارسیامارکیز کی کہی ہوئی ایک بات کا اعادہ شاید بے موقع نہ ہوگا کہ ’’تخیل کا کام حقیقت کی تخلیق ہے۔ تخلیق کا سر چشمہ آخری تجزیے میں حقیقت ہی ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’جب موضوع اور مصنف مل کر ایک ہو جاتے ہیں تو صحیح Inspiration پیدا ہوتا ہے۔ پھر دونوں ایک دوسرے کو مہمیز دیتے ہیں۔ باہمی تناؤ ختم ہو جاتاہے۔ ایسی باتیں لکھنے والے پر کھلنے لگتی ہیں جو کبھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہ آئی تھیں۔‘‘ چنانچہ معلوم، مانوس ذہنی اور جذباتی محرکات کے ساتھ ساتھ قرۃ العین حیدر کی تخلیقات میں ہمیں جابجا ایسی حقیقتوں کے نشانات بھی ملتے ہیں، جو روایتی فکشن کی طرح ہمیشہ قابل توثیق (Verifiable) نہیں ہوتیں اور اس تخلیقی جوہر کی طرف اشارہ کرتی ہیں جسے ہم عادتا ًشاعری سے جوڑتے ہیں۔قرۃ العین حیدر نے لکھنے کو ایک ما بعدالطبیعاتی فعل جو قرار دیاتھا، تو اسی لئے کہ ہر بڑے لکھنے والے کی طرح ان کے فکشن کی سطحیں اور سمتیں بھی کثیر ہیں اور ان سب کا احاطہ کرنے کے لئے ہمیں فکشن کے رسمی تصور سے بہرحال آگے جانا ہوگا۔ اردو فکشن کی تاریخ میں نذیر احمد اور رسوا سے لے کر عہد حاضر تک کسی دوسرے لکھنے والے نے فکشن کی تفہیم و تعبیر کے اتنے دائروں، نکتوں اور زاویوں سے ہمیں روشناس نہیں کرایا جتنا کہ قرۃ العین حیدر نے، اوریہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔قرٖۃ العین حیدر کے فکشن کو سمجھنا ایک ایسے شہرغریب میں داخل ہوناہے جہاں مناظر کی کثرت ہے اور تماشوں کا ایک ہجوم۔ تاریخ سے مافوق التاریخ تک، حقیقت سے رومان تک، ہم کئی اطراف سے اپنے آپ کو گھرا ہوا پاتے ہیں۔ بہت سی صورتیں مانوس اور جانی پہچانی، بہت سی نامانوس اور انجانی جن سے ہمارا تعارف لکھنے والے کے واسطے سے ہوتا ہے اور اخیرمیں اس شہر کی فصیل سے نکلنے کا راستہ حسب توفیق ہم خود تلاش کرتے ہیں۔ چنانچہ قرۃ العین حیدر کا مطالعہ تاریخ، تہذیب، ثقافت، سماجیات، فلسفہ، نفسیات، حد تو یہ ہے کہ تصوف اور وجدانیات تک مختلف واسطوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے عہد کے کسی بھی فکشن لکھنے والے کے تخلیقی ادراک کی تفہیم میں حوالوں کا ایسا ہجوم دکھائی نہیں دیتا۔ قرۃ العین حیدر کا مطالعہ کسی معینہ سیاق کا پابند نہیں ہے۔(۱۰)پروفیسر مجتبیٰ حسین نے ’میرے بھی صنم خانے‘ سے ’آگ کا دریا‘ تک تہذیبی طاقت کے ایک سلسلے کی نشاندہی کی تھی۔ تہذیب اور ثقافتی ماحول سے ناول کے تعلق کی بنا پر ہی فریڈرک جیمسن نے ناول کو ایک ’’قومی تمثیل‘‘ کا نام بھی دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ شعر اور نثر کی ہر اہم صنف کی تشکیل میں اسے عقبی پردہ مہیا کرنے والی تہذیب کا کچھ نہ کچھ عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کوئی کلیہ تو نہیں بنایا جاسکتا، تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ میر، غالب، انیس، اقبال سے لے کر رسوا، پریم چند اور قرۃ العین حیدر تک، ان کی تخلیقات کا تہذیبی حوالہ ان کے شعور کی تعمیر میں ایک سرگرم مخفی وسیلے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ فکشن میں علاقائیت سے عالمیت تک، ریجنل سے گلوبل تک کا سفر اسی وسیلے اور اسی سر چشمہ فیضان کی مدد سے طے ہوتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے رمزِ کمال تک رسائی کے لئے ان کی تخلیقات کا ذہنی پس منظر مرتب کرنے والی تہذیب اور اس تہذیب کے عناصر پر قرۃ العین حیدر کے شعور کی گرفت کے علاوہ دونوں کے باہمی ربط کو سمجھنا بہرحال ضروی ہے۔ دونوں میں ایک سا رکھ رکھاؤ ہے، ضبط ہے اور احساس تناسب۔ دونوں میں ایک سی شستگی (Urbanity) ہے۔