قرب نس نس میں آگ بھرتا ہے

قرب نس نس میں آگ بھرتا ہے
وصل سے اضطراب بڑھتا ہے


میں فقط ایک خواب تھا تیرا
خواب کو کون یاد رکھتا ہے


آج کی شب شب قیامت ہے
دل مرا بے طرح دھڑکتا ہے


فقر کیا ہے بہ دوست پیوستن
غم کا عرفاں ہے آگہی کیا ہے


میں ملاتا ہوں شعر و آتش کو
فن مجھے کیمیا کا آتا ہے


توشۂ راہ عشق ہے اندوہ
غم دلوں کو قریب لاتا ہے


شعر تازہ ہے تحفۂ شاعر
مشک نافہ ہرن نے اگلا ہے


قلت کلفت و تکلف میں
راحت قلب نا شکیبا ہے


عیش ناپائیدار پر نازاں
آدمی کتنا بھولا بھالا ہے


جان کا صرفہ ہو تو ہو لیکن
صرف کرنے سے علم بڑھتا ہے


کسے پاس مراتب الفاظ
حشر معنی سے قتل برپا ہے


پا کے غافل کہیں نہ ڈس لے تمہیں
ڈرو اس سے جو تم سے ڈرتا ہے


مقصد اثبات ذات ہے اس سے
کیا گلے کا سبب بھی ہوتا ہے


سچے تخلیق کار کی مانند
اونگھتا ہے خدا نہ سوتا ہے


آب و رنگ حیات ہے اس سے
آرزو جاگتوں کا سپنا ہے


میرے مولا کریم نے مجھ کو
غیر مطبوع ذہن بخشا ہے


یوں لگے جیسے پردۂ سیمیں
آنکھ کیا روح کا دریچہ ہے


کس نے دیکھا ہے پردۂ ظلمات
دل کے بھیدوں کو کس نے پایا ہے


کون مر کر دوبارہ زندہ ہوا
کون ملک فنا سے لوٹا ہے


کر کے یکسر مجھے نظر انداز
کس سے دل ہم کلام رہتا ہے


باوجود فشار شب ہمہ شب
حسن ہر صبح تازہ ہوتا ہے


ہر بن مو بنا ہے پردۂ ساز
دل کے تاروں کو کس نے چھیڑا ہے


بات عبدالعزیز خالدؔ کی
داستان امیر حمزہ ہے