قرآن سے رابطہ
کاش کہ میں قرآن کے علاوہ اور کسی چیز میں مشغول نہ ہوتا!
سفیان الثوری رحمہ اللہ نے فرمایا:
”کاش کہ میں خود کو صرف قرآن تک محدود رکھتا۔“
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
”میں اس بات پرشرمندہ ہوں کہ میں نے قرآن کے معنی کے علاوہ اور چیزوں پر زیادہ وقت ضائع کردیا۔“
سفیان ابن عینیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”اللہ کی قسم یہ معاملہ اپنے اعلیٰ مقام کو اس وقت پہنچے گا جب اللہ تعالی تمہیں ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہوجائے۔ تو جس نے قرآن سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی۔ خوب سمجھ لو جو تم سے کہا جارہا ہے۔“
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
”جب تم علم کا ارادہ کرو تو قرآن کو کریدو کیونکہ یقینا اس میں پہلوں اور پچھلوں کا علم ہے۔“
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”بے شک وہ گھر جس میں قرآن پڑھا جاتا ہے وہ اپنے رہنے والوں کے لیے کشادہ ہوجاتا ہے، اس کی خیر بڑھ جاتی ہے، اس میں فرشتے آتے ہیں اور شیاطین نکل جاتے ہیں۔ اور بے شک وہ گھر جس میں اللہ کی کتاب میں سے کچھ نہیں پڑھا جاتا وہ اپنے رہنے والوں کے لیے تنگ ہو جاتا ہے، اس کی خیر کم ہوجاتی ہے اور فرشتے اس سے نکل جاتےہیں اور شیطان اس میں آنے لگتے ہیں۔“
اعمش رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”وہ چیز جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بلند کیا، وہ قرآن ہے۔“
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”اللہ کی قسم! قرآن کے علاوہ کوئی غنی نہیں اور اس کے بعد کوئی محتاجی نہیں۔“
کسی سلف نے کہا:
”قرآن کا جتنا میرا حصہ زیادہ ہوا اتنی ہی میرے وقت میں برکت ہوئی۔ اور میں مسلسل اسے بڑھاتا رہا یہاں تک کہ میرا حزب دس پاروں تک چلا گیا۔“
ابراہیم بن عبد الواحد المقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے علم کے لیے سفر کا ارادہ کیا تو ضیا المقدسی نے انھیں وصیت کی:
” قرآن کو بہت زیادہ پڑھو، اس کو چھوڑو نہیں، کیونکہ جس قدر تم اس کو پڑھو گے اسی کے مطابق تمہارے لیے آسانی کی جائے گی۔ “
الضیاء رحمہ اللہ نے کہا:
” میں نے یہ دیکھا ہے اور اس کا بہت زیادہ تجربہ کیا ہے کہ جب میں نے قرآن کو زیادہ پڑھنا شروع کیا تو میرے لیے حدیث کا سننا اور اسے کثرت سے لکھنا آسان کردیا گیا اور جب نہیں پڑھا تو آسانی بھی نہیں ہوئی۔ “
حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
” جو تم سے پہلے تھے وہ قرآن کو تمہارے رب کے پیغامات سمجھتے تھے تو وہ رات کو غورو فکر کرتے اور دن میں اس کا جائزہ لیتے۔ “
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
” اگر تمہارے دل پاک ہوتے تو وہ قرآن کی قرأت سے کبھی سیر نہ ہوتے۔ “
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:
” قرآن کو شعر کی طرح گا کر نہ پڑھو اور نہ ہی اسے ردی کھجور کی طرح پھینکو۔ اس کے عجائبات کے پاس ٹھہر جاؤ اور اس کے ساتھ دلوں کو حرکت دو۔ اور تم میں سے کسی کی فکر یہ نہ ہو کہ وہ سورت کو ختم کردے۔“
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ مجھے وصیت کیجیے۔ انہوں نے کہا:
” اللہ کی کتاب کو اپنے سامنے رکھو اور اس کے حاکم ہونے پر راضی ہوجاؤ۔ پس بے شک یہ قرآن ہی وہ چیز ہے جس نے تمہارے بیچ تمہارے رسول کو خلافت دی، یہ وہ سفارشی ہے جس کی بات مانی جائے، وہ گواہ ہے جس پر الزام نہ لگایا جائے، اس میں تمہارا ذکر ہے اور ان کا ذکر جو تم سے پہلے تھے۔ فیصلہ کرنے والا جو تمہارے سامنے ہے اور خبر جو تمہارے بعد ہے۔“
کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
” تم پر قرآن واجب ہے کیونکہ اس میں عقل کی سمجھ بوجھ، حکمت کی روشنی اور علم کا سرچشمہ ہے۔ رحمان کی طرف سے آنے والی نئی کتاب ہے۔“
کعب احبار نے کہا: ”السابقون، السابقون وہ اہل القرآن ہیں۔“
ذو النون مصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے ساتھ انس کیا ہے؟
کہا: ”علم اور قرآن۔“
حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا:
” حلاوت کو تین چیزوں میں تلاش کرو۔ نماز میں، قرآن اور ذکر میں۔ پھر جب تم اس کو پا لو پس چل پڑو اور خوش ہوجاؤ۔ پھر اگر تم یہ مٹھاس نہ پاؤ تو جان لو کہ تمہارا دروازہ بند ہے۔“
قتادہ رحمہ اللہ نے کہا:
” اپنے دلوں کو اس کے ساتھ آباد کرو اور اپنے گھروں کو بھی، یعنی قرآن کے ساتھ۔ “
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
” یقینا یہ دل سمیٹنے والے ہیں تو تم ان کو قرآن کے ساتھ مشغول کرو اور اس کے علاوہ کسی اور کے ساتھ نہیں۔ “
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
” تم پر قرآن واجب ہے پس اسے سیکھو اور اپنے بیٹوں کو سکھاؤ۔ پس بے شک تم سے اس بارے میں سوال ہوگا اور اسی کے ساتھ تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔ اور یہ ہی نصیحت کرنے کے لیے کافی ہے اس کو جو عقل رکھتا ہے۔“
ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
” جب تم اس بات کا اراداہ کرو کہ تم یہ جانو کہ تمہارے پاس اور دوسروں کے پاس اللہ کی محبت میں سے کیا ہے تو اپنے دل میں قرآن سے محبت کو دیکھ لو۔ “