خالد کا قلم اور ضمیر کی اردو
’’نہیں ،روشنائی تو ہے لیکن شاید یہ آسان اردو نہیں لکھتا۔‘‘
’’نہیں ،روشنائی تو ہے لیکن شاید یہ آسان اردو نہیں لکھتا۔‘‘
پولیس کپتان سے لکڑبگھا زندہ پکڑلانے کے اس کارنامے پرشاباشی اورانعام لینا ہے۔ اس خواہش کے نشے میں وہ ہجوم ایسا بے حواس ہوا کہ یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کا بنگلہ آبادی سے پرے جنگل کے راستے میں ہے اور جنگل دیکھ کر اس کی وحشت بھڑک بھی سکتی ہے۔ اور یہی ہوا۔۔۔
، صاحبو! نام رکھنا بھی ایک ہنر ہے۔ انورؔمسعود کہتے ہیں: کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے میری۔۔۔۔۔۔۔۔ نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا
مگر چٹانیں انجان رہتی ہیں کہ ان پر بہنے والا پانی کس کے کام آتا ہے, اور پنجاب کی زرخیز زمینیں چٹانوں کے درد سے نا آشنا ہیں۔ برہمن بتوں کے سامنے مالا جپتے ،اپنے دکھ بیان کرتے عمر گزار دیتے ہیں ،پھر بھی ان پتھروں کے درد کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ دنیا تضادات کا ایک مجموعہ ہے۔ محبت وہ کڑی ہے جو ان تضادات میں گھرے لوگوں کو جوڑتی ہے۔
ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ اردو ادب کے تین سب سے بڑے نقاد میں ان کا شما رہوتا ہے۔ جبکہ ن م راشد نے انہیں اردو زبان کا واحد مکمل باقاعدہ نقاد قرار دیا۔
تم بھی لیکن ارادے کی شمشیر تھے اہل ِکشمیر کی صبحِ امید تھے شب کی تنویر تھے ایک پُرزور نعرۂ تکبیر تھے ابن کشمیر تھے
کُنیت مشہور ہوجانے کی وجہ سے اصل نام بھول جانے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً عبدالعزیٰ کا چہرہ آگ کے شعلوں کی طرح دہکتا ہوا سُرخ تھا۔ لوگ اس کا بھی اصل نام بھول گئے اور ابولہب (شعلے جیسے چہرے والا یا شعلہ رُو) کہہ کر پکارتے پھرے۔ اسی طرح عمرو بن ہشام، حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود، اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے جاہلیت کے دھرم پر اَڑا رہا۔ اِس وجہ سے اُس کی کنیت ابوجہل (صاحبِ جہالت) اُس کا عُرف بن گئی اور یہی اُس کی شناخت ٹھہری۔
کہیں عقوبت کدوں میں ظلم و ستَم کی سولی پہ مرنے والوں کی یادگاروں کو تازگی کا پیام دے گی
دس دن مکمل ہوئے ۔بادشاہ نے اپنے پیادوں سے وزیر کو کتوں میں پھنکوایا لیکن وہاں کھڑا ہر شخص اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ آج تک نجانے کتنے ہی وزراء ان کتوں کے نوچنے سے اپنی جان گنوا بیٹھے لیکن آج یہی کتے اس وزیر کے پیروں کو چاٹ رہے ہیں۔ بادشاہ یہ سب دیکھ کر حیران ہوا اور پوچھا، " کیا ہوا آج ان کتوں کو؟؟؟"
ایک وہ گروہ جس کے بقول کورونا اول تو ہے ہی نہیں، اور اگر ہو بھی تو یہودی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جس کا ایمان یہ ہے کہ ڈاکٹر ٹیکے لگا کر لوگوں کو مارتے ہیں اور پھر ان اموات کو کورونا کے سر منڈھ دیا جاتا ہے، جن کے نزدیک "جیہڑی رات قبر وچ اے او باہر نئیں" قانون شکنی اور عدم احتیاط کی اسب سے مؤثر دلیل ہے۔