ستمبر ، راستہ دے
افتخار حسین عارف صاحب اس عہد کے امین اور سب سے بڑے شاعر ہیں، انھوں نے جس بھی موضوع پر شاعری کی، ہمیشہ باریاب ٹھہری۔۔۔ اردو ادب کے تمام بڑے نقاد انہیں عظیم شعرا میں شمار کرتے ہیں۔
افتخار حسین عارف صاحب اس عہد کے امین اور سب سے بڑے شاعر ہیں، انھوں نے جس بھی موضوع پر شاعری کی، ہمیشہ باریاب ٹھہری۔۔۔ اردو ادب کے تمام بڑے نقاد انہیں عظیم شعرا میں شمار کرتے ہیں۔
مختصر نظموں میں ہمالہ، مرزا غالبؔ، خفتگان خاک سے استفسار، عقل و دل، ایک آرزو، جگنو، نیا شوالہ، داغ، کنار راوی، محبت، حقیقت حسن، چاند اور تارے، کوشش ناتمام، انسان، ایک شام، ستارہ، گورستان شاہی، فلسفہ غم، چاند، بزم انجم، سیرفلک، حضور رسالت مآبؐ میں، ارتقا، شیکسپیئر اور طویل نظموں میں شکوہ جواب شکوہ، شمع و شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، خضر راہ، طلوع اسلام کی نمایاں شعریت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
لہذا لایعنی بحث مت کریں اور جو کہہ رہا ہوں ، اس پر عمل کریں۔ قاضی نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم، قاضی اور مفتی تو تجھے ہونا چاہئے ، ہم تو جھک ماررہے ہیں ۔ جو کچھ تجھے چاہیے، لے پکڑ۔۔ لاحول و لا قوۃ الا باللہ. اور یوں چور سب کچھ لیکر فرار ہوگیا۔
اُردو کا رونا رونے میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر غازی علم الدین اور جناب رضا علی عابدی سمیت آج کل بہت سے لوگ مصروف ہیں۔ ہمیں اور برادر خورشید ندیم کو بھی انھیں اہلِ گریہ میں ڈال لیجیے۔ مگر رونا کاہے کا؟ اُردو کی فتوحات تو بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اُردو کا جادُو (کسی بھوت کی طرح) لوگوں کے سر چڑھ چکا ہے اور وہیں چڑھے چڑھے (اُردو) بول رہا ہے۔
اگر تم میری ہدایتوں پرعمل کروگے توصاحبِ قلَم مُحرّر بن جاؤگے۔ وہ اہلِ قلم جو دیوتاؤں کے بعد پیدا ہوئے، آئندہ کی باتیں بتا دیتے تھے۔ گو وہ اب موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے لئے اہرام نہیں بنائے اور نہ اس قابل ہوئے کہ اپنی اولاد کے لیے خزانے چھوڑ جاتے، مگر ان کی تحاریر آج بھی بنی نوعِ آدم کے سفرِ ارتقا کی خبر دیتی ہیں۔
یہی اردو کا وصف ہے جس کی وجہ سے یہ زبان جنوبی ایشیا کے علاوہ بھی پوری دنیا میں بولی، سمجھی اور لکھی جا رہی ہے۔ اردو کی اس صفت کا مقابلہ اردو، فارسی، ترکی یا کوئی اور زبان نہیں کر سکتی۔ ان زبانوں میں اجنبی الفاظ کی بھرمار ہے۔ فارسی میں سٹیشنری کو لوازم التحریر کہتے ہیں یا نوشت افزار! اردو نے سٹیشنری کا لفظ جذب کر لیا۔
کہا کہ مجھے ایک ٹکٹ فرسٹ کلاس کا لاہور کے لئے چاہیئے۔ اس نے جواب دیا، ’’یہ ٹکٹ آپ کو نہیں مل سکتا۔ اس لئے کہ سب سیٹیں بک ہیں۔‘‘ میں بمبئی کے ماحول کا عادی تھا۔ جہاں ہر چیز بلیک مارکیٹ میں مل سکتی ہے۔ میں نے اس سے کہا، ’’بھئی تم کچھ روپے زائد لے لو۔‘‘ اس نے بڑی سنجیدگی اور بڑے ملامت بھرے لہجے میں مجھ سے کہا، ’’یہ پاکستان ہے۔۔۔ میں اس سے پہلے ایسا کام کرتا رہا ہوں مگر اب نہیں کر سکتا۔ سیٹیں سب بک ہیں۔ آپ کو ٹکٹ کسی بھی قیمت پر کبھی بھی نہیں مل سکتا۔‘‘ اور مجھے ٹکٹ کسی قیمت پر بھی نہ ملا۔
تہمت کی اصل ’وہم‘ ہے۔’تَوَہُّم‘ کا مطلب ہے وہم کرنا یا گمان میں مبتلا ہونا۔ تہمت بھی دراصل بدگمانی اور بدظنی ہے۔ ہمارے شعرائے کرام بہتان کم باندھتے ہیں، تہمت زیادہ لگاتے ہیں۔ بہتان باندھنے کا الزام بھی دوسروں کے سرجاتا ہے۔ داغؔ کا شعر ہے: میں اور دشمنوں سے شکوہ کروں تمھارا؟ بہتان جوڑتے ہیں، بہتان باندھتے ہیں
سراج الدولہ 23 جون 1757 کو یہیں سے اپنا وہ لشکر لے کر چلے تھے ، جس کے شمر مزاج سالار ، میر جعفر نے پلاسی کے میدان کو ریگزارِ کربلا بنا دیا۔۔۔۔ خیر ، سراج الدولہ تو خدا کا شیر تھا، سو درونِ زنداں بھی عدو اس سےگھبراتے اور خوف کھاتے تھے۔ لہٰذا اس کی جان لیے بنا چارہ نہ تھا ، سو میر جعفر اور اس کے بیٹے، غدار ابنِ غدار میر مدن نے 2 جولائی 1757 کو نواب سراج الدولہ کو شہید کر دیا ، تاریخ کا ستم دیکھیے کہ میر جعفر کے جس محل میں سراج الدولہ شہید کیے گئے، اسے تاریخ کے پنّوں میں میر جعفر کی
سگریٹ پینے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں!!!