غزل: اسی کو راز بتایا جو رازدار نہ تھا
جنون اسے بھی رہا آندھیوں پہ قبضہ کا , جسے خود اپنی ہی سانسوں پہ اعتبار نہ تھا
جنون اسے بھی رہا آندھیوں پہ قبضہ کا , جسے خود اپنی ہی سانسوں پہ اعتبار نہ تھا
عظیم مزدور شاعر ، نثر نگار ، وہ جس نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کو اس رنگ میں دیکھا کہ یہ جہاں، یعنی جہانِ معلوم، اسے جہانِ دیگر ۔نظر آنے لگا ۔ یعنی وہ شخص ، جس نے جامعہ پنجاب کے ریگزاروں میں مزدوری کی ، بیل کی طرح کولہو چلائے ، دیواریں کھڑی کیں ، دیواروں پر اپنے ہنر کے نشاں ثبت کیے ،اس احسان دانش کی بعد میں اسی مادرِ علمی ، یونیورسٹی آف دی پنجاب میں بحیثیتِ پروفیسر تقرری بھی ۔ہوئی
میں اپنی باری پر اندر گئی تو ڈاکٹر کو دیکھتے ہی میرے سارے جذبات بھاپ بن کر بھک سے اڑ گئے۔ یہ ڈاکٹر سر سے گنجا، سر کے اطراف میں سلیٹی رنگ کے بالوں کی جھالر، چہرے پر پڑی ہوئی جھریاں، باہر کو نکلا ہوا مٹکے جیسا پیٹ اور کمر اس سے کہیں زیادہ جھکی ہوئی جتنی میرے کئی دیگر ہم عمر دوستوں کی تھی جنہیں میں جانتی تھی۔
جو تیز رَو ہوتے ہیں، وہ پیش رَو ہوتے ہیں۔ ہم تو صرف پَیرو ہیں۔ پیروی کرنے میں طاق۔ نقّالی میں یکتا۔ ہر شعبے میں ’نقلی مال‘ بنانے کے ماہر۔ دنیا بھر میں ہمیں ’نقّال درجۂ اوّل‘ مانا جاتا ہے۔ جس شعبے میں بھی دیکھیے ہم فقط نقّالی ہی کررہے ہیں… تعلیمات میں، ابلاغیات میں اور طرزِ حیات میں۔ لیکن نقال کتنے ہی اچھے نقال کیوں نہ ہوجائیں، رہیں گے نقَّال کے نقَّال۔ ’نقل‘ کو کبھی ’اصل‘ کا مقام نہیں ملتا۔ سو ہمیں اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے لیے اپنی اصلیت سے دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔
جب پتھروں کے شہر میں ہم نے اذان دی پتھروں کے شہر میں اذان دینے کے لیے جو حوصلہ درکار ہے ، وہ کوئی پتّھروں کے شہر میں رہنے والا ہی جانتا ہے ، کہ سوال اٹھانا جرم اور اور سر اٹھانا سرکشی ہے ، کہ " چلی ہے رسم ، کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے "
اُردو کا ذخیرۂ الفاظ اُن کے دامن میں سما نہیں سکا۔ سو، اپنی تنگ دامنی کو انھوں نے اُردو ہی کی تنگ دامانی قرار دے ڈالا۔ کہتے ہیں کہ معاصر علوم کی تعلیم اُردو میں دی ہی نہیں جا سکتی۔ دلیل یہ ہے کہ اُردوکے دامن میں اتنی وسعت نہیں کہ جدید علوم کا احاطہ کرپائے۔ صاحبو! یہ دعویٰ کرے تو وہ کرے جسے اُردو زبان پر عبور ہونے کا بھی دعویٰ ہو۔ ماں باپ یا ماموں سے سن کر اُردو بول لینے اور لکھ لینے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اُردو پر عبور ہوگیا۔
قصہ مختصر یہ کہ اگر آپ اُردو میں صحافت کرنا چاہتے ہیں تو اُردو ہی کے الفاظ کو اُردو سے بے دخل کردینے پر کیوں تُل گئے ہیں؟ اُردو کے قارئین اور ناظرین کے سروں پر نامانوس انگریزی الفاظ کی بمباری کی مہم کیوں چلا رہے ہیں؟ ’بمباری‘ پر یاد آیا کہ جن انگریزی الفاظ کو اُردو نے اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیا ہے، یا جن انگریزی الفاظ کو جوں کا توں قبول کرلیا ہے مثلاً ریڈیو، ٹیلی فون، ٹیلی وژن اور جج وغیرہ اُن سے تعارُض نہیں۔ اسی طرح اسمائے معرفہ کا بھی ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ فیس بک کو ’کتاب چہرہ‘ اور ٹوئیٹر کو
یہاں میر کے اس شعر پر غور کیجئے ، " کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ پر پیچ و تاب ، شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا " ، پہلے مصرعے کا تقریباً نصف حصہ بجز یک شعلہ پر پیچ و تاب، دوسرے مصرعے کی سادگی اور روانی کی وجہ سے کھٹکتا ہی نہیں۔ میر سوز نے فارسی تراکیب سے اجتناب کیا، میر نے انھیں سلیقے سے برتا، آرزو نے فارسی تراکیب سے احتراز کیا۔ یگانہ نے حسب موقع ان سے کام لیا۔ یہی بات دونوں کی شاعری کا درجہ متعین کرنے میں معاون ہے۔
غزل کے سلسلے میں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ مغربی نظریۂ فن کے مطابق یہ فن پارہ ہو یا نہ ہو، مشرقی نظریۂ فن کے مطابق یہ بھی فن کا ایک روپ ہے اور اس میں بحر، قافیے اور ردیف کے ذریعہ سے ذہن کی ایک خاص رو، کیفیات کے ایک خاص آہنگ، جذبات کی ایک خاص لے، ایک مخصوص فضا کی آئینہ بندی کی جاتی ہے۔ بحر ایک بساط عطا کرتی ہے۔ قافیہ اس بساط کی سطح پر تکرار اور توقع کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے ذہن کو ایک روشنی اور روح کو ایک بالیدگی عطا کرتی ہے اور ردیف حالت یا زمانے یا شرط کے ذریعہ سے اسے چست
بچے بچے کو معلوم ہے کہ اردو کا خمیر آمیزش سے اٹھا ہے اور اس کے مزاج میں وسعت اور فراخ دلی ہے۔ انگریزی کے سینکڑوں الفاظ , گاؤں گاؤں قصبے قصبے میں سمجھے اور بولے جاتے ہیں۔ مگر اب اگر یارانِ ہوش مند، ان الفاظ کو ہٹا کر غیر مانوس اور نہ سمجھ آنے والے الفاظ سے اردو کی ''خدمت‘‘ کرنا چاہتے ہیں تو اس کارِ خیر میں ہم بھی اپنا حصہ ڈال کر ان یارانِ ہوش مند کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔