غزل: کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
اقبال یوں تو نظم کے عظیم ترین شعرا میں سے ایک ہیں ، مگر ان کی بہت سی غزلیں بھی ایک الگ اور اچھوتا رنگ رکھتی ہیں۔ خصوصاً ان کی وہ غزلیں ، جو بال جبریل میں ہیں۔ زیرِ نظر غزل بھی بال جبریل سے ہی لی گئی ہے۔
اقبال یوں تو نظم کے عظیم ترین شعرا میں سے ایک ہیں ، مگر ان کی بہت سی غزلیں بھی ایک الگ اور اچھوتا رنگ رکھتی ہیں۔ خصوصاً ان کی وہ غزلیں ، جو بال جبریل میں ہیں۔ زیرِ نظر غزل بھی بال جبریل سے ہی لی گئی ہے۔
گہری سبز گھاس سے لدے میدان، اطراف میں کیاریاں، بیچ بیچ میں پھولوں سے لدے تختے جیسے جھومر میں سجے نگینے، کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے تالاب، کچھ روشوں کے کنارے ایسے درخت جو اوپر جا کے مل جاتے اور پھولوں کی چھت بن جاتی۔ چھوٹے چھوٹے بورڈز پہ پھولوں کے نام اور معلومات۔ ہر سیاح تصویریں اتارتے نہ تھکتا۔
پہنچا جو آپ کو ، تو مَیں پہنچا خدا کے تئیں ؛ معلوم اب ہُوا ، کہ بہت مَیں بھی دور تھا
اس شخص کے اس سوال پر جج صاحب نے غور فرمایا ، اور پھر کچھ توقف کے بعد کہا کہ گدھے کو آپ کچھ بھی بولیے، کورٹ کا اس سے کچھ لینا یا دینا نہیں ہے۔
''غلام'' تو وہ ہیں جن کے مسکن حویلیاں اور محلات ہیں۔ مربعوں اور جاگیروں کے مالک ہیں۔ جن کے لئے روزگار کی کمی ہے، نہ حلال کمانے اور کھانے میں کوئی رکاوٹ۔ نہ تو ان کے مال و دولت پہ کسی کا زور آور کا زور چلتا ہے ، نہ ہی ان کی زندگی کسی کے رحم و کرم کی محتاج ہے۔
وہ اردو شاعری میں ایک نئی طرز کے موجب بھی تھے اور اس کے خاتم بھی۔ انہوں نے ہندوستان میں مغربی تہذیب کے اولین اثرات کی تنقید میں اپنی طنزیہ شاعری سے خوب کام لیا۔ اس کے علاوہ وہ علی گڑھ تحریک کےبھی زبردست ناقد تھے اور انہوں نے سر سید اور ان کے احباب کی شدید مخالفت کی۔ اودھ پنچ کی جانب سے انہوں نے مغرب اور اہل مغرب کے خوب لتے لیے
قدَم اٹھتے ہی نہیں ، ضُعف کا عالم ہے نصیر ؛ کوئی لے جائے مجھے تھام کے مے خانے تک
اکبر الٰہ آبادی نے کہا : " زہے نصیب ، ورنہ مَیں نہ نبی ہوں ، نہ امام۔ نہ غوث ، نہ قطب ، نہ ابدال اور نہ ہی کوئی ولی ، جو قابلِ زیارت تصور کِیا جاؤں ۔ مَیں ایک زمانے میں جج تھا ، اور اب ریٹائر ہو کر صرف اکبر ہی رہ گیا ہوں ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ، مَیں حیران ہوں کہ آپ کی خدمت میں کیا تحفہ پیش کیا جائے۔" گوہر نے کہا :" کچھ طلب نہیں حضور۔ہاں اگر ہو سکے تو فقط یاد گار کے طور پر ایک شعر عنایت فرما دیجیے۔"
یہ تاثر عوام میں عام ہے کہ کتابوں میں کی گئی باتوں کا اصل زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ عوام کے ان چند تاثرات میں سے ایک ہے جو ٹھیک بھی ہیں۔ کیونکہ اس کا حقیقی مظہر ہمیں سرکاری محکموں میں دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ سرکاری محکموں کے کام ہمارے ٹیکس سے چلتے ہیں۔ جبکہ زندگی کا حقیقی تجربہ بتاتا ہے کہ وہاں تو ہر کام ہمارے چائے پانی سے چلتا ہے۔
’’ایک مشاعرے کے بعد ایک نوجوان میرے پاس آیا۔ اُس نے میرے بعض اشعار کی ایسی عمدہ فنی تعریف کی کہ میں اُس کی سمجھ بوجھ اور قابلیت سے بہت متاثر ہوا۔ جب وہ رخصت ہونے لگا تو میں نے اُس سے پوچھا: ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ میرا سوال سن کر نوجوان مُسکرایا اور بولا: ’’نام تو میرا بھی احسان ہی ہے، لیکن میں ’بن دانش‘ نہیں ہوں‘‘۔