لطیفہ: ٹیکسی ڈرائیور کارٹن لے کر رفو چکر ہو گیا
ایک صاحب کا قصہ ، جو اپنا کارٹن اٹھائے ہوئے کسی ٹیکسی میں سوار ہوئے ، اور رستے میں کسی دکان پر موبائل ایزی لوڈ کروانے کے لیے اترے تو ٹیکسی ڈرائیور ان کا کارٹن لے کر فرار ہو گیا۔
ایک صاحب کا قصہ ، جو اپنا کارٹن اٹھائے ہوئے کسی ٹیکسی میں سوار ہوئے ، اور رستے میں کسی دکان پر موبائل ایزی لوڈ کروانے کے لیے اترے تو ٹیکسی ڈرائیور ان کا کارٹن لے کر فرار ہو گیا۔
فیض صاحب! میری بیوی کو آپ کی نظم ، مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، بہت پسند ہے۔ وہ مجھے بار بار طعنے دیتی ہے کہ تم ہمیں ایک شاعر سے اس کی ایک نظم بھی نہیں سنواسکتے۔ خدا رکھے آپ کے بلا لائسنس ریڈیو کو، اس کے طفیل مجھے آپ سے اپنی یہ عرض کرنے کا موقع مل گیا۔
صرف فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی وہ دو اردو قلم کار اور شعرا ہیں، جنہیں روس کی جانب سے لینن ایوارڈ دیا گیا۔ برصغیر میں دائیں بازو اور بائیں بازو والے، اپنے اختلافات اور خیالات میں تضاد کے با وجود ، فیض احمد فیض کی شاعری پر سو فیصد متفق ہیں۔
حقائق کو جانے پرکھے بغیر ہر قسم اور روپ کی بلا وجہ و بے سر و پا جذباتیت تخلیق کرکے دانستہ یا نا دانستہ عوام کے غم و غصے کو مٹانے کا کام لیا جاتا ہے۔ تاکہ عوام کے جذبات کسی تحریک کی شکل اختیار نہ کر سکیں اور کسی بڑی تبدیلی کا باعث نہ بن سکیں۔ مثال کے طور پر صرف تحریک خلافت کے واقعات ہی دیکھ لیجیے۔
دھونس ، دھمکی ، رشوت اور قانون کے نام پر ظلم کی لعنت کو اجاگر کرتی ایک تحریر۔۔ یہ ان سرکاری اہلکاروں کے لیے، جو رشوت لیتے ہیں یا خاطر تواضع کرواتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی ، اپنے اشتراکی نظریات اور ترقی پسندی کو ترک کر کے دین کی طرف آئے۔ اور دین سے والہانہ تعلق کا اظہار ان کے آخری دور کی تحریروں اور شاعری میں بہت واضع دیکھائی دیتا ہے۔ آپ کی ایک مشہور نعت ، "کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا"، میں عقیدت اور عقیدے کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔
خوش تھے کہ انتظامیہ انھیں ۰۵۱ روپے اضافی بھی ادا کرتی ہے۔ مزید فرمایا: ” جناب! میں کپڑے جوتے خریدنے کے بجائے سارے پیسے جمع کر کے کتابیں خرید لیتا ہوں۔لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنی کتابیں پڑھ پڑھ کرتم اور پاگل ہو جاؤ گے“۔
"اگر یہ سارے چونچلے فقط کسی نہ کسی کا دَف مارنے کے لئے ہیں تو چٹوروں کی سمجھ میں اتنی سی بات کیوں نہیں آتی کہ یکے بعد دیگرے دَف مارنے کے بجائے، شروع میں ہی کم مرچیں ڈالیں یا پھر زبان پہ ربڑکا دستانہ چڑھا کر کھائیں۔"
یہ نظم مولانا نعیم صدیقیؒ نے ۱۹ ستمبر ۱۹۵۱ء کو اُس وقت رقم کی تھی، جب پہلی بار یہ خبر آئی کہ امریکہ نے پاکستان کی امداد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس ڈالر کے لیے ہمارا ایک ڈکٹیٹر اپنی کتاب میں فخر سے لکھتا ہے کہ ہم نے اپنے وطن کے شہری امریکہ کے ہاتھ بیچ کر ڈالر لیے۔ آج بے حساب لوگ پاکستان میں مختلف شعبہ جات میں بیٹھے امریکہ کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں اور امریکی ڈالر وصول کر رہے ہیں۔ نظم پر ایک نظر ڈال کر فیصلہ کریں کہ کیا کچھ شاعروں کے وجدان کا قائل ہونا بنتا ہے یا نہیں؟؟؟
علامہ شبلیؔ اپنی ذات میں ایک مکمل ادبی انجمن تھے ۔ انہوں نے 57 برس کی عمر میں تن تنہا ہی ایسے کارنامے انجام دیے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ان کے ان ہی ادبی کارناموں سے متاثر ہو کر سلطان ترکی نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ مجیدی کے پروقار اعزاز سے نوازا۔ ، آپ کا 18نومبر 1914ء کو انتقال ہوا ،اور آپ اعظم گڑھ ،اتر پردیش ، ہندوستان میں محو خواب ہیں ۔ مگر مولانا شبلی علیہ رحمہ کے علمی کارنامے اور اسلامی تمدن و تہذیب کے متعلق جس قدر بلند پایہ مضامین انہوں نے لکھے وہ رہتی دنیا