قومی زبان

ڈپٹی نذیر احمد : اردو زبان کے پہلے با قاعدہ ناول نگار

ںذیر احمد

عرب، شام وروم، افریقہ، فارس کہیں کے مسلمان،  بیوہ کے دوسرے نکاح میں کسی طرح کی عار نہیں سمجھتے۔ یہ خاص کر کچھ ہندوستان ہی میں مسلمان کی شامت ہے کہ انھوں نے بیوہ کے دوسرے نکاح کو عیب سمجھ رکھا ہے۔ یہ ان پر ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی پھٹکار ہے۔احمقوں نے ہندوؤں کی رسم تو اختیار کرلی مگر یہ نہ سمجھے کہ اس رسم کے پیچھے دین اور ایمان سب کھوبیٹھے۔ بیوہ کا نکاح نہ کرنا بھی بڑا بھاری گناہ ہے۔

مزید پڑھیے

لسانی لطیفے کیوں سرزد ہوتے ہیں؟

ادبی محفل سجی ہوئی تھی۔یکایک اُردو کے ایک گراں قدراور’گزٹیڈ‘ استاد اُٹھے اور گرج گرج کر اقبال کی نظم ’شکوہ‘ سنانے لگے۔ ابھی پہلا ہی مصرع پڑھاتھا کہ ہم نے سر پیٹ لیا۔ حالانکہ موقع ’سرپیٹ دینے‘ کا تھا۔ مصرع انھوں نے کچھ اس طرح پڑھا: کیوں زیاں کار بنوں ”سُودے فراموش“ رہوں

مزید پڑھیے

بھائی طلعت تم بھی عجیب گدھا ہے

ارد شیر کاوس جی

ارد شیر کاوس جی پاکستان کے معروف قلم کار اور زرتشتی مذہب سے وابستہ سینیئر صحافی تھے۔ ان کے کالمز مستقل طور پر قومی انگریزی اخبار ، ڈان میں چھپتے رہے ، جبکہ ان کے اردو کالمز "خاص مضمون" کے عنوان سے شائع ہوا کرتے تھے۔ اردو زبان میں ان کی تحریر تو بہت عمدہ اور شُستہ تھی ، مگر اپنے گجراتی اور پارسی پس منظر کے باعث ان کی گفتگو اور بول چال کا انداز سب سے الگ تھا۔ ان کا 2012 میں انتقال ہوا۔

مزید پڑھیے

ایک سعادت مند بیٹے کے قلم سے والد کی محبت اور والد سے محبت کی ان مٹ داستان

باپ

مطالعے کا شوق زندگی کے آخری دن تک رہا۔ نوائے وقت اخبار روزانہ پڑھتے اور یہ معمول تادمِ مرگ جاری رہا۔ اخبار کے تمام سلاسل جیسے نورِ بصیرت، سرراہے، اداریہ کا عمیق مطالعہ کرتے۔ کالم نگاروں میں جناب عرفان صدیقی، جناب عطاء الحق قاسمی، محترمہ طیبہ ضیاء اور اجمل نیازی مرحوم والد صاحب کو بہت محبوب تھے۔ تاریخی کرداروں کے بارے میں چھپنے والے سلاسل بہت شوق سے پڑھتے۔ ٹیپو سلطان کے بارے میں خان آصف کا لکھا ہوا ناول ایک مرتبہ کسی جریدے میں قسط وار چھپا تو والد صاحب نے سارا پڑھا۔ ٹیپو سلطان کے بہت بڑے مداح تھ

مزید پڑھیے

کیا جرات کا کوئی سیرم یا محلول ہے ، جس سے بزدل کو بہادر بنایا جائے؟

جرات

اچھا  جرات مندی کا وراثت سے بھی کچھ واسطہ نہیں، کہ اسی محمد شاہ رنگیلا کے اجداد جرات مندی اور بہادری کے استعارے تھے، فرخ سیر ، اورنگ زیب ، شاہ جہاں، جہاں گیر ، اکبر ، ہمایوں ،بابر ، کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں ، کہ یہ تو تیموری لڑی تھی۔ مگر بہادروں کے گھر بزدل اور بزدلوں کے گھر  میں بہادر پیدا ہو جایا کرتے ہیں ۔ سائرس کی داستان تو سب نے سنی ہی ہو گی ناں!!! 

مزید پڑھیے

اردو زبان یا کسی بھی معاملے میں ، درست کو غلط کرنے کی بجائے غلط کو درست کیجیے

اکثر لکھاری صاحبان اس شعر کو لاوارث جان کر کبھی مولانا حالیؔ سے منسوب کردیتے ہیں، کبھی علامہ اقبالؔ سے۔ حالاں کہ یہ شعر مولانا ظفرؔ علی خان کے شعری مجموعے ’’بہارستان‘‘ میں شامل ہے، اور یہ مجموعہ 1937ء میں شائع ہوا تھا، جب اقبال ؔابھی بقیدِ حیات تھے۔ شعر کا مرکزی خیال قرآنِ مجید سے ماخوذ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے بڑے علما فضلا اس آیت کو مثبت تبدیلی کی شرط کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس آیت کا حوالہ دے کرکہتے ہیں کہ اگر کوئی قوم اپنی خراب حالی کو خود نہ بدلنا چاہے تو اللہ بھی اس قوم کی بُری ح

مزید پڑھیے

نہ ، نا اور ناں کو کب اور کہاں استعمال کرنا چاہیے؟

اردو زبان

اردو زبان اس قدر مشکل نہیں جس قدر عموماً طالب علم یا اردو سے گریزاں افراد بتاتے ہیں۔ بلکہ سچ پوچھیے تو اس سے سہل اور رواں زبان تو شاید ہی کوئی اور ہو۔ صرف مناسب رہنمائی اور چند رہنما اصول پلے باندھ لیے جائیں تو ہم میں سے ہر ایک زبان پر اچھا خاصا ماہر ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیے
صفحہ 15 سے 6203