سانحہ بیت المقدس پر ابن انشا کی نظم : دیوار گریہ ، حصہ چہارم
تاکہ عمان و مکہ بھی محفوظ ہوں ؛ تاکہ لاہور و ڈھاکہ بھی محفوظ ہوں ؛ تاکہ اور اہلِ دنیا بھی محفوظ ہوں
تاکہ عمان و مکہ بھی محفوظ ہوں ؛ تاکہ لاہور و ڈھاکہ بھی محفوظ ہوں ؛ تاکہ اور اہلِ دنیا بھی محفوظ ہوں
بیت المدس ، یعنی وہ جو امت کا دار الحکومت ہے ، اس پر جب غاصب صہیونیوں نے قبضہ کیا تو امت کے سبھی قلم کار ترپ اٹھے ۔ اردوزبان میں اس سانحے پر بے شمار نظمیں ، نوحے ، آہیں ، مضامین اور اشک بار افسانے رقم کیے گئے ، کہ قلم کار کے بس میں یہی ہے۔ بہت سوں نے اس پر بہت کچھ لکھا ، مگر شاید کسی نے بھی ابن انشاء سے بڑھ کر دلوں کے تار نہ چھیڑے ہوں گے۔
اوپر،غزل والے شعر میں، چچا نے ’کاٹ‘ کو مذکر باندھ دیاہے، جب کہ لغات میں یہ ’اسمِ مؤنث‘ ہے۔ شاید ردیف کی مجبوری سے چچا کو اس لفظ کی جنس تبدیل کرنی پڑ گئی۔ ردیف کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ اسی غزل کے ایک شعر میں چچا بچوں کو کیا پٹّی پڑھا رہے ہیں: " وہ چُراوے باغ میں میوہ جسے ؛ پھاند جانا یاد ہو دیوار کا "
بیش تر موٹی ویشنل اسپیکرز کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ وہ صرف بڑی بڑی باتیں کرنے اور غپیں ہانکنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ (اِلّا ما شاء اللہ) یہ لوگوں کو جھوٹی امیدوں اور کھوکھلی تقریروں کے سہارے گرویدہ بنانا جانتے ہیں اور اس کے سوا کچھ بھی ان کے پاس نہیں ہوتا۔
افتخار عارف انتہائی قادر الکلام شاعر اور شگفتہ لب و لہجے کے مالک انسان ہیں ۔ انہوں نے کرب و بلا ، استعماری قوتوں کے انکار ، جبر کے خلاف مزاحمت اور دِیا جلائے رکھنے کے عزم کو ہمیشہ اپنی شاعری سے پیوست رکھا ہے ، کہ شاید سلیم احمد کے فکری جانشین کے یہی شایانِ شاں تھا۔ زیرِ نظر آزاد نظم اپنے منفرد اور دل نشین انداز کے علاوہ ظلم کے خلاف جدوجہد اور اس راہ کی صعوبتوں پر استقامت و عزیمت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے بالآخر حق کے ہی فتح یاب ہونے کی خبر دیتی ہے۔
انھوں نے نظریاتی میلانات سے بلند ہو کر شاعری کی ۔ اس لئے ان کا میدانِ شعر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور متنوع ہے جس میں بہرحال مرکزی حیثیت عشق کی ہے۔ ان کی تمام شاعری اک حیرت کدہ ہے جس میں داخل ہونے والا دیر تک اس کے سحر میں کھویا رہتا ہے۔ انھوں نے شاعری اور نثری اظہار کے لئے نہایت سادہ اورعام فہم زبان استعمال کی۔ ان کی گفتگو کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اردو شاعری میں آئے روز نت نئے تجربات ہو رہے ہیں، اور یہ معاملہ صرف اردو شاعری تک محدود نہیں ، ہر زبان کی شاعری میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن ان تجربات میں صرف وہی مقبول ہونے چاہئیں جو لچر پن ، بازاری الفاظ اور عامیانہ انداز سے پاک ہوں ۔ اسی طرح شاعری کو کوئی عجیب و غریب ملغوبہ بنا کر رکھ دینا بھی زبان و ادب سے کوئی خیر خواہی نہیں۔ لہٰذا یہ غظم ، نثری شاعری وغیرہم کو شاعری تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
اے میرے عزیز !! تُو نے غلط قیاس کیا۔ میرے پاس بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔میں اگر جانتا ہُوں تو بس اتنا کہ :ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے اور ایک وقت کشتی بنانے کا۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا جب ہم سے اگلوں نے ساحل پہ اُتر کر سمندر کی طرف پشت کر لی تھی اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ اَب بِپھرتا سمندر ہمارے پیچھے نہیں ، ہمارے سامنے ہے۔اور ہم ہیں کہ ہم نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے۔
مولانا ظفر علی خان قادر الکلام شاعر اور عظیم صحافی تھے ۔ شاعری میں اس درجہ مشاق اور با صلاحیت تھے کہ کھڑے کھڑے اشعار کے اشعار کہتے چلے جاتے تھے ، اور فی البدیہ شاعری میں خاص ملکہ رکھتے تھے۔
مولانا مودودی کا ادب یعنی لٹریچر سے نہایت گہرا اور اٹوٹ تعلق تھا۔ یہی نہیں ، بلکہ مولانا نے اپنی اوائلِ عمری میں خاصی پختہ شاعری بھی کی ، اور "طالب" تخلص فرمایا۔