قومی زبان

اچھن، چھبن، بچھن، جون،ان چاروں میں اچھا کون؟

یاروں نے اس مشکل کا عجیب حل نکالا۔ ایک حسن بھائی بہت موٹے شیشوں کا چشمہ لگاتے تھے۔ ستم ظریفوں نے ان کا نام اندھے حسن رکھ دیا۔ دوسرے حسن بھائی چشمہ نہیں لگاتے تھے۔ کم بختوں نے انھیں چُندھے حسن کہنا شروع کردیا۔ ایک انور شاہ جی ہوگئے اور دوسرے انور حاجی۔ ایک کامی باس ہیں اور ایک کامی بھوں۔

مزید پڑھیے

افسانہ: سڑک پار کرنے دو

یہ تقریباً روز کا منظر تھا۔ یوں ہی تماشا ہوتا اور یوں ہی فاروق کی سڑک پار ہوتی۔ نہ ٹریفک رکتی اور نہ ہی ایسا ہوتا کہ وہ سڑک پار نہ کر پائے۔ مشکل ہی سے صحیح لیکن سب ہو جاتا۔ یہ زندگی ہے، یہاں کچھ نہیں رکتا۔ کسی کے لیے بھی نہیں۔ ہلکی سی مدد کرتی آواز ہوتی ہے اور آپ کو پار کر جانا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے

رسیلی زبان اورکچھ رس بھری باتیں

ہماری قومی زبان بھی رسیلی زبان ہے۔اس میں بڑا رس ہے۔ مگر قومی زبان پر قوم کا بس نہیں۔ خود قومی زبان بھی بے بس ہوکر رہ گئی ہے۔ تعلیم اور کارِ سرکار کی زبان فرنگی زبان ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس اب یہی زبان ان کے بس میں ہے۔ گو کہ فرنگی زبان پر بھی پوری طرح بس نہیں چلتا، اُلٹا اسی نے لوگوں کو بے بس کر رکھا ہے۔ پر لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ اسی زبان کو لکھنا، پڑھنا اور بولنا ہمارے لیے بس ہے۔

مزید پڑھیے

نوجوانوں کے لیے خوب صورت ڈرامہ: از خواب گراں خیز

سٹیج پر شاہی لباس پہنے دو کردار داخل ہوتے ہیں۔ دونوں کردار مسلمانوں کے عروج کی عملی تصویر لگ رہے ہیں۔ پروقار چال، سینہ چوڑا، پر اعتماد اور چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات۔ دونوں کرداروں کے بائیں ہاتھ میں تلوار اور سیدھے ہاتھ میں کتاب ہے۔ دونوں کردار ایک دفعہ اکٹھے کتاب لہراتے ہیں اور پھر آپس میں تلواریں ٹکراتے ہیں۔ پھر سٹیج کے درمیان میں آ کر کتاب اور تلوار بلند کرکے اکٹھے اس طرح کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جیسے دونوں میں بہت اتحاد ہے۔

مزید پڑھیے

افسانہ: ایک گھر میں اجنبی

ایسا نہیں تھا کہ گھر کے مکین ایک دوسرے سے بیزار تھے یا پھر ان کے درمیان کوئی بہت لمبی ناراضگی چل رہی تھی۔ بس نہ جانے کیوں ایک عجیب سی ہچکچاہٹ درمیان میں آ گئی تھی۔ ایک اَن دیکھی سی اک دیوار تھی جو ہٹنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ ایک ایسی ان دیکھی دیوار جو سمندر میں ساتھ ساتھ چلتے پانی کو بھی علیحدہ کر دیتی ہے۔ سب مکین ساتھ رہتے تھے لیکن ایسے کہ ان میں میلوں کا فاصلہ ہو ۔

مزید پڑھیے

کیا پہر، آٹھوں پہر اور پہرے دار کا آپس میں کوئی تعلق ہے؟

قدیم ہندوستان میں وقت ناپنے کا پیمانہ پہر ہوا کرتے تھے۔ دن رات کے آٹھ پہر تھے، اور ہر پہر تین گھنٹے کا ہوا کرتا تھا۔ ہر پہر کے دوران پہرے دار چوکسی پر رہتے تھے اور ہر گھنٹہ پورا ہونے پر دھات کے بنے گھنٹے پر چوٹ دے کر اعلان کرتے تھے کہ وہ پہرے پر ہیں اور دوسرے یہ بھی پتہ چلتا تھا کہ وقت کیا ہوا ہے۔ پہر سنسکرت لفظ "پرہر" سے بنا ہے۔ اب پہرے دار کا مطلب صرف سنتری، محافظ یا چوکی دار رہ گیا ہے۔

مزید پڑھیے

لاہور، بارش اور لاہوریے

آپ نے اطالوی شہر وینس کے بارے میں تو سنا ہی ہو گا ۔ کہتے ہیں وہ پانی میں آباد ہے۔ لیکن کیا آپ نے ایسے شہر کے بارے میں بھی سنا ہے جو پانی اور خشکی دونوں میں آباد ہے؟ نہیں!!! تو بھئی ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ وہ شہر جو پانی اور خشکی دونوں میں آباد ہے، اس کا نام ہے لاہور۔ جی ہاں، بارش سے پہلے خشکی میں اور بارش کے بعد پانی میں۔

مزید پڑھیے

منشی پریم چند کا شاہ کار افسانہ : شطرنج کے کھلاڑی: آخری قسط

شطرنج کے کھلاڑی

شطرنج کے کھلاڑی ، منشی پریم چند کا شاہ کار افسانہ ہے ۔ اس عہد کی داستان ، جب ہماری عظمت پر عیش و عشرت کی گرد بیٹھتے چلی گئی اور جب ہماری تلوار صرف رقص کے لیے محدود ہو گئی ، اور نوشتۃ دیوار کے الفاظ میں ، کہ جب خالق نے ہمیں پرکھا اور ہمیں کھوٹا اور ہلکا پایا ، تو ہمیں بدل دیا۔ پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا یہ ہماری موجودہ صورت حال کی عکاسی نہیں کرتا؟

مزید پڑھیے

منشی پریم چند کا شاہ کار افسانہ : شطرنج کے کھلاڑی: تیسری قسط

شطرنج کے کھلاڑی

شطرنج کے کھلاڑی ، منشی پریم چند کا شاہ کار افسانہ ہے ۔ اس عہد کی داستان ، جب ہماری عظمت پر عیش و عشرت کی گرد بیٹھتے چلی گئی اور جب ہماری تلوار صرف رقص کے لیے محدود ہو گئی ، اور نوشتۃ دیوار کے الفاظ میں ، کہ جب خالق نے ہمیں پرکھا اور ہمیں کھوٹا اور ہلکا پایا ، تو ہمیں بدل دیا۔ پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا یہ ہماری موجودہ صورت حال کی عکاسی نہیں کرتا؟

مزید پڑھیے

استعمار سے انکار کی علامت نظم: راج محل کے دروازے پر

استعمار

مجید امجد ، آزاد نظم کے سب سے عمدہ شاعر ، اپنی شاعری میں بے شمار رنگا رنگ موضوع سموئے ہوئے تھے ، مگر سب رنگوں پر فوقیت رکھنے والا رنگ جد و جہد کے پیغام اور صبحِ نو کی نوید کا تھا ۔ یہ رنگ ، ان کی بہت سی نظموں اور اشعار میں جھلکتا ہے۔

مزید پڑھیے
صفحہ 10 سے 6203