قرأت، تعبیر، تنقید
قرأت اور تنقیدی قرأتہم ادب کے عام قاری ہوں یا تنقیدی قاری ہوں، دونوں ہی حیثیتوں میں ہم فن پارے کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ ہر فن پارہ تعبیر کا تقاضا کرتا ہے لیکن ہمارا یہ کہنا کافی نہیں۔ اس قول، یا اس دعوے کے ساتھی یہ بھی کہنا یا یہ دعویٰ بھی کرنا ضروری ہے کہ قاری یا تنقیدی قاری کی حیثیت میں عموماً ہم اس مفروضے پر عمل کرتے ہیں کہ معنی کے اعتبار سے کوئی فن پارہ دو حال سے خالی نہ ہوگا،(۱) فن پارے کے معنی صرف وہی نہیں جو پہلی قرأت پر ہماری سمجھ میں آئے تھے۔
یا(۲) فن پارے میں اتنے ہی معنی نہیں جتنے پہلی قرأت پر ہمیں نظر آئے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کسی تحریر کے بارے میں گمان کر لیتے ہیں کہ وہ فن پارہ ہے تو ہم یہ بھی گمان کر لیتے ہیں کہ اس کے معنی کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے اور یہ اختلاف صرف دو پڑھنے والوں کے درمیان نہیں، بلکہ خود ہمارے اندر بھی ہو سکتا ہے یعنی ممکن ہے ہم کسی وقت کسی فن پارے کے کچھ معنی بیان کریں اور دوسرے وقت ہم خود اسی فن پارے کے معنی کچھ اور بیان کریں۔ پہلی صورت کی مشہور مثال فیض کی نظم ’’صبح آزادی‘‘ ہے۔ جب یہ نظم شائع ہوئی تو عام پڑھنے والوں کا گمان اس کے بارے میں یہ تھا کہ یہ بہت اچھی نظم ہے کیونکہ اس نظم میں ہمیں متنبہ کیا گیا ہے کہ تمھیں سیاسی آزادی تو مل گئی لیکن اصل آزادی ابھی ملنا باقی ہے۔یہ بھی خیال کیا گیا کہ اس نظم میں ایک معنی اور بھی ہیں اور وہ یہ کہ نظم اس تشدد اور غارت اور ظلم اور بہیمت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جس کا بازار آزادی کے وقت سارے برصغیر میں گرم ہوا۔ لیکن اس عام تاثر کے برخلاف سردار جعفری نے اس نظم کو ناکام ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ نظم میں جو باتیں کہی گئی ہیں انھیں تو کوئی بھی شخص کہہ سکتا تھا، وہ مسلم لیگی ہو یا ہندو مہاسبھائی یا کوئی اور۔ یعنی سردار جعفری کے خیال میں نظم اس لئے ناکام تھی کہ اس میں مارکسی فکر نہ تھی۔ یعنی شاعر نے اس باب میں براہ راست کچھ نہ کہا تھا کہ کمیونسٹ انقلاب ابھی واقع نہیں ہوا ہے اور انقلاب پر جو کہا بھی گیا تھا وہ بس اتنا تھا کہ ع چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی، لہٰذا یہ نظم سیاسی طور پر غیرپختہ تھی اور نظم چونکہ سیاسی طورپر غیرپختہ تھی لہٰذا وہ شاعری کے طور پر بھی ناکام تھی۔کسی فن پارے کے معنی کسی شخص کے لئے کبھی کچھ ہو سکتے ہیں اور کبھی کچھ، یہ دوسری صورت ہے جو فن پارے میں قرأت یا اس پر تنقیدی اظہار خیال کے دوران عموماً پیش آتی رہتی ہے۔ فانی کا مشہور شعر ہے،آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہےدل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہےاس شعر کے بارے میں رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ اس کے معنی تب میرے سمجھ میں آئے جب میں اپنی بیٹی کے غم میں نڈھال تھا۔ ظاہر ہے کہ رشید صاحب کا مطلب یہ نہ تھا کہ اس واقعے کے پہلے انھیں اس شعر کا مطلب معلوم ہی نہ تھا۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اس شعر میں جس جذباتی کیفیت اور روحانی کرب کا ذکر ہے، اسے سمجھنے کے لئے انسان کے پاس دردمند اور زخمی دل ہونا ضروری ہے۔ خیر، یہ تو جذباتی ردعمل کی بات ہوئی۔ لیکن رومن یا کبسن (Roman Jacobson) نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ڈبلیو۔ بی۔ یے ٹس (W. B. Yeats) کی نظم The Sorrows of Love کو میں مدتوں سے پڑھتا رہا ہوں اور میرا خیال تھا کہ میں نے اسے پوری طرح سمجھ لیا ہے لیکن ایک دن جب میں ٹرین میں بیٹھا ہوا کہیں جا رہا تھا تو اچانک میرے ذہن میں اس نظم کے معنی کا ایک نیا پہلو کوند گیا۔ میرا خیال ہے یا کبسن کاسا تجربہ ہم سب کو کبھی کبھی ہوتا ہوگا۔ میں اپنا ایک تجربہ ابھی تھوڑی دیر میں بیان کروں گا۔جب ہم معبر یا نقاد کی حیثیت سے کسی فن پارے کے معنی کو بیان کرنے بیٹھتے ہیں تو یہ عمل بھی دوحال سے خالی نہیں ہوتا، یعنی فن پارے کے معنی پر کلام کرتے وقت ہم شعوری یا غیرشعوری طور پر دو میں ایک مفروضے پر عمل کرتے ہیں۔ (۱) فن پارے کے جو معنی ہم بیان کر رہے ہیں، وہی معنی منشائے مصنف میں تھے یعنی ہمارے بتائے ہوئے معنی کے صحیح پن (Validity) کی ضمانت خود مصنف سے ہمیں حاصل ہے۔ یا (۲) ہمارا مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں منشائے مصنف سے کوئی غرض نہیں۔ جو معنی ہم بیان کر رہے ہیں وہی معنی فن پارے میں ہیں، خواہ منشائے مصنف ان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ملحوظ رہے کہ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے معنی اور مصنف کے بتائے ہوئے معنی میں مطابقت ہوتی ہے، یا جو متعدد معنی ہم نے بیان کئے ہیں ان میں سے ایک، یا چند معنی مصنف نے بھی بیان کئے تھے۔ لیکن دوسرے مفروضے کی روشنی میں یہ بات ہمارے لئے محض اتفاقی بات ٹھہرتی ہے اور اس سے ہمارے اس اصول پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ جو معنی ہم بیان کر رہے ہیں درحقیقت وہی معنی فن پارے میں ہیں۔قرأت اور نظریۂ قرأتاوپر جو کچھ کہا گیا ہے وہ ادب کی قرأت، بلکہ ادب کی تنقید یا تنقیدی قرأت کی بنیادی صورت حال پیش کرتا ہے۔ اس صورت حال میں بہت سے مسائل اور سوالات مضمر یا زیر زمیں ہیں۔ میں انھیں درج کئے دیتا ہوں لیکن اس وضاحت اور اس شرط کے ساتھ کہ اوپر بیان کردہ صورت حال یہ بھی فرض کرتی ہے کہ ہمیں حسب ذیل مسائل اور سوالوں کے جواب معلوم ہیں،(۱) ’’فن پارہ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ یعنی ہم کس طرح متعین کرتے ہیں کہ فلاں تحریر فن پارہ ہے اور فلاں تحریر فن پارہ نہیں ہے؟(۲) اگر فن پارہ کوئی چیزہے تو پھر فن پاروں کے بارے میں ’’بہت اچھا‘‘، ’’اچھا‘‘، ’’کم اچھا‘، اور ’’خراب‘‘ کا حکم لگ سکتا ہوگا۔(۳) یا شاید ایسا نہیں ہے، کیونکہ ’’اچھا‘‘ ہونا شاید فن پارہ ہونے کی شرط ہے۔ یعنی اگر فن پارہ ہے تو اچھا ہی ہوگا۔(۴) ’’قرأت‘‘ کے معنی ہیں کہ ’’قاری‘‘ بھی کوئی شے ہے۔ کسی فن پارے کا ’’قاری‘‘ اسے کہیں گے جو اس زبان سے بخوبی واقف ہو جس زبان میں وہ فن پارہ لکھا گیا ہے۔(۵) ’’زبان‘‘ سے ہم وہی مراد لیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں مثلاً ان اصولوں یا جن رسومیات یا جن تہذیبی تصورات اور شعریات کی رو سے کوئی فن پارہ بامعنی بنتاہے، انھیں فن پارے کی ’’زبان‘‘ میں شمار کریں یا نہ کریں یا شمار کریں تو کس حد تک، یہ فیصلہ ہم کرتے ہیں۔(۶) ’’معنی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کسی فن پارے کو پڑھ کر جو کچھ ہمیں حاصل ہو سکتا ہے وہ اس فن پارے کے معنی ہیں۔(۷) لیکن اس کا مطلب شاید یہ نہیں ہے کہ ہم کسی فن پارے کے معنی غلط سمجھیں اور دعویٰ کریں کہ یہی اس کے معنی ہیں۔(۸) یعنی معنی کے لئے بھی شاید یہی شرط ہے کہ کسی فن پارے کے معنی کی حد تک معنی وہی کلام ہے جو ’’صحیح‘‘ ہو۔ جو صحیح نہیں وہ معنی نہیں۔ اور یہ فیصلہ ہم کریں گے کہ کوئی معنی ’’صحیح‘‘ ہیں کہ نہیں۔(۹) ’’ہم‘‘ بڑی باریک اصطلاح ہے لیکن ہر قاری خود کو ’’ہم‘‘ کا مصداق سمجھتا ہے۔ملحوظ رہے کہ جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے اس میں تنقیدی نظریہ سازی بالکل نہیں ہے اور نہ ہی یہ نکات کسی پہلے سے موجود تنقیدی نظریے کی تفصیل بتانے کی کوشش ہیں اور پردرج کردہ نکات صرف اس صورت حال کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں جو ان چار مفروضوں میں مضمر تھی جومیں نے شروع میں درج کئے تھے۔ لیکن ایک بات جو اس تفصیل سے برآمد ہوتی ہے، وہ یہ کہ اسے آپ شاید ایک طرح کا نظریۂ قرأت یا ’’قرأت کے بارے میں ایک نظریہ‘‘ کہہ سکتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اسی نظریے کی رو سے ہم سب اپنے اپنے طور پر فیصلہ کرتے ہیں کہ ’’فن پارہ‘‘ کسے کہہ سکتے ہیں۔پھر ہم لوگ اپنے اپنے طور پر فن پارے کے معنی بیان کرتے ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم صرف معنی ہی نہیں بتاتے، بلکہ ہم فن پارے (یا جس چیز کو ہم فن پارہ کہہ رہے ہیں)، اس پر اظہار خیال بھی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ اظہار خیال ہمیں فن پارے سے اور خود اپنے سے دور لے جاتا ہے۔ پھر لوگوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے، وہ پوچھتے ہیں کہ کیا تنقید اسی کو کہتے ہیں؟ یا، کیاکسی فن پارے کے معنی یوں بیان کئے جاتے ہیں؟ جب یہ شکایت بہت زور پکڑ لیتی ہے تو پھر ہم میں سے کوئی اٹھتا ہے اور’’تنقید‘‘ کی ایک اور کتاب لکھ دیتا ہے۔ یاطالب علموں کو مطمئن کرنے (یا خاموش کرنے) کے لئے ایک اور سیمینار یا لیکچر منعقد کر دیا جاتا ہے۔تو کیا اس کا مطلب ہم یہ سمجھیں کہ قرأت کے عمل میں کوئی تنقیدی نظریہ شامل ہوتا ہی نہیں؟ ظاہر ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے، تنقیدی نظریہ تو ہر قرأت میں شامل ہوتا ہے۔ کوئی فن پارہ غزل ہے کہ نہیں، یہ فیصلہ بھی ہم کسی تنقیدی نظریے کی روشنی میں کرتے ہیں اور کسی فن پارے سے کوئی توقع وابستہ کرنا بھی تنقیدی نظریے ہی کی روشنی میں ممکن ہے، ہم توقع کرتے ہیں افسانے میں کردار کے جنسی جذبات ومحسوسات پر روشنی ڈالی جائےگی۔ یہ توقع ہم ایک تنقیدی نظریہ کے سبب سے کرتے ہیں، جس کی رو سے کرداروں کی داخلی زندگی اور جذباتی کوائف بیان کرنا فکشن کے لئے ضروری ہے۔ اور اسی توقع کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں عورت کی تصویرکشی اطمینان بخش نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی عورت کرداروں کے جنسی خیالات، محسوسات، جذبات، کامیابیوں، ناکامیوں وغیرہ کے بارے میں کوئی اندر کی بات نہیں کہتے، صرف سرسری اور سطحی یا ظاہری بیان پر مبنی اشارے کرتے ہیں۔پڑھنے کا فیصلہ کرنا اور فن پارے سے کچھ تقاضے کرنا اپنے آپ میں ایسا عمل ہے جو کسی تنقیدی نظریے کی روشنی میں انجام پاتا ہے۔ مشکل صرف یہ ہے کہ جب ہم فن پارے کو پڑھنے کے بعد اس پر اظہار خیال شروع کرتے ہیں تو تنقیدی نظریے یا نظریات سے بہت زیادہ اور بہت مختلف تصورات اور تعصبات بھی ہمارے کلام میں درآتے ہیں۔ اکثر یہ عمل ہماری بے خبری میں وقوع پذیر ہوتا ہے اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم باطنی طور پر شکست مان کر فن پارے کے بارے میں تجزیاتی اظہار خیال ترک کرکے فن پارے کے بارے میں محض گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ دونوں حالات میں نتیجے کے طور پر جو تحریر وجود میں آتی ہے اسے مزے دار بکواس یا معلومات آگیں بات چیت کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔تعبیر اور تنقید، وجودیاتی اورعلمیاتی بیاناتتنقید کے نام سے جو تحریریں عموماً سامنے آتی ہیں انھیں پڑھ کر الجھن یا مایوسی کااحساس زیادہ تر اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ تنقیدی تحریر میں تنقیدی نظریہ بہت کم دکھائی دیتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ ہم ان تحریروں میں نظریے کی بہت ہی ابتدائی شکل، اور پھر بہت سے کچے پکے نظریات کے ملغوبے سے دوچار ہوتے ہیں، لہٰذا پوچھنے والے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب آپ کسی تنقیدی نظریے کی روشنی میں کسی فن پارے کے معنی بیان کرتے ہیں یا اس پر تنقید لکھتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں؟ یعنی آپ اپنے نظریے کو عمل میں لاتے ہوئے تنقید لکھتے ہیں تو وہ تنقید کس طرح رونما ہوتی ہے؟ ملحوظ رہے کہ کسی فن پارے کے معنی بیان کرنا اور اس پر تنقید کرنا ایک ہی کارگذاری کے دو پہلو ہیں۔ معنی بتائے اور سمجھائے بغیر تنقید نہیں ہو سکتی اور تنقید کئے بغیر آپ معنی بیان نہیں کر سکتے۔’’تعبیر‘‘ سے مراد ہے، کسی فن پارے میں معنی بیان کرنا اور ’’تنقید‘‘ سے مراد ہے، (۱) کسی فن پارے کی خوبیاں یا کمزوریاں بیان کرنا، یعنی اس کی فنی قدر یا مرتبہ مقرر کرنا، اور (۲) فن پاروں کے بارے میں ایسے بیانات وضع کرنا جن کا عمومی اطلاق ان فن پاروں پر ہو سکے جو ایک ہی نوعیت کے ہیں یا ایک ہی صنف سے تعلق رکھتے ہیں۔ دراصل تنقید اور تعبیر باہم الجھے ہوئے دھاگے ہیں اور ان کا آپس میں الجھا ہوا ہونا بعض اوقات مشکل پیدا کرتا ہے۔تعبیری اقوال یا فقرے دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ یعنی جن بیانات کو تعبیری کہا جاتا ہے وہ دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ ایک کو ہم اپنی سہولت کی خاطر ادبی یا وجودیاتی (Ontological Statements) اور دوسری طرح کے بیانات کو فلسفیانہ یا علمیاتی یعنی Episternological Statements کہہ سکتے ہیں۔ آسانی کی خاطر ہم کہہ سکتے ہیں ادبی وجودیاتی اقوال کا سروکار فن پارے کے فنی پہلوؤں کی طرف ہوتا ہے اور ان اقوال سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ فن پارے کے ان معنی کو محیط ہوتا ہے جن تک ہم فنی تجزیے کی روشنی میں پہنچ سکتے ہیں اور علمیاتی اقوال کا سروکار فن پارے کے فلسفیانہ، سماجی اور عقلی پہلوؤں سے ہوتا ہے۔ان اقوال سے جو نتیجے برآمد ہوتے ہیں وہ فن پارے کے ان معنی کو محیط ہوتے ہیں جن تک ہم فن پارے کے فلسفیانہ وغیرہ تجزیے کی روشنی میں پہنچ سکتے ہیں۔ ادبی/ وجودیاتی قول صرف اس فن پارے پر صادق آئےگا جس کے بارے میں وہ وضع کیا گیا تھا۔ لیکن فلسفیانہ /علمیاتی قول بہت سے فن پاروں پر صادق آ سکتا ہے۔ موخر الذکر (یعنی علمیاتی بیان) کی اس صفف یا خوبی (یعنی اس کے عمومی پن) کی بنا پر ہم اسے بھی عموماً تنقید کے زمرے میں رکھ دیتے ہیں۔اس طرح فن پارے کی تعبیر کے لئے صرف دو طریق کار ہیں۔ (۱) فن پارے کے طرز وجود کا مطالعہ، یعنی فن پارے کی ادبی اور فنی حیثیت کی روشنی میں اس کے معنی کا تعین۔ (۲) فن پارے کے علمیاتی مافیہ کامطالعہ، یعنی فن پارے کی فلسفیانہ، سیاسی وغیرہ حیثیت کی روشنی میں اس کے معنی کا تعین۔ہرچند کہ فن پارے کے بارے میں ادبی/ وجودیاتی اقوال اور فلسفیانہ/علمیاتی اقوال کی نوعیتیں مختلف ہیں، لیکن ان کے باہم دگر آویختہ ہونے کے باعث کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک طرح کا بیان بہت جلد دوسری طرح کے بیان کے منطقے میں جا نکلتا ہے اور کبھی کبھی دونوں مل کر کسی ایک تیسرے ہی منطقے میں جا نکلتے ہیں، مثلاً میر کا شعر ہے (دیوان اول)،واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلایاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلااب شعر کے بارے میں مندرجہ ذیل بیانات ملاحظہ ہوں،(۱) صبح کو سورج کا رنگ فطری طور پر سرخی مائل نارنجی ہوتا ہے لیکن صبح کا سورج کچھ جھلملاتا ہوا اور کچھ لرزتا ہوا سا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پانی میں ہو۔ معشوق کے چہرے کو سورج سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان دونوں باتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ معشوق نے صبح کو شراب پی تو اس کا چہرہ برافروختہ ہو گیا۔ پھر معشوق گھر سے باہر نکلا تو دیکھنے والوں (والے) کو ایسا لگا کہ سورج کا جھلملاتا ہوا سا اور لرزتا ہوا ساہونا شرم کے باعث ہے۔یعنی ایسا لگا کہ سورج کے چہرے کی بھڑکتی ہوئی چمک شرمندگی کے پسینے کے باعث جھلملاہٹ اور لرزش اور سرخی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس تعبیر کی رو سے سورج کا شرمندہ ہونا واقعی نہیں ہے، بلکہ دیکھنے والوں (والے) کے عندیے میں ہے۔ حقیقت جو کچھ بھی ہو لیکن جو کوئی بھی معشوق کو دیکھ کر سورج کو دیکھتا ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ سورج کو شرم آ گئی ہے اور وہ پسینے پسینے ہو رہا ہے اور یہ واقعہ صرف آج کے دن کا ہے، یعنی آج صبح کو ایسا ہوا۔(۲) صبح کو سورج کا رنگ فطری طور پر سرخی مائل نارنجی ہوتا ہے لیکن صبح کا سورج کچھ جھلملاتا ہوا اور کچھ لرزتا ہوا سا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پانی میں ہو۔ معشوق کے چہرے کو سورج سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان دو باتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ جب معشوق شراب پی کر برافروختہ چہرہ لئے باہر نکلا تو اس کے حسن کو دیکھ کر سورج شرم سے عرق آلود ہو گیا اور وہ کچھ سرخی مائل جھلملاتا اور کچھ لرزتا سانظر آنے لگا۔ یعنی صبح کے سورج کی لالی اور اس کی روشنی میں لرزش اور جھلملاہٹ فطری نہیں ہے بلکہ شرم کے پسینے کی وجہ سے ہے اور شرم اسے اس لئے آئی کہ معشوق اس سے حسین تر ہے۔ یعنی اس بیان کی رو سے یہ واقعہ ہر روز پیش آتا ہے اور صورت حال یہ نہیں ہے کہ ’’گویا سورج شرم سے عرق آلود ہے۔‘‘ بلکہ یہ ہے کہ ’’سورج بے شک اور فی الحقیقت شرم سے عرق آلود ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ شعر زیربحث کے بارے میں یہ دونوں بیانات وجودیاتی نوعیت کے ہیں، یعنی ان میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ شعر کن باتوں پر قائم کیا گیا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ باتیں صرف اس شعر سے متعلق ہیں۔ یہ بیانات کسی اور شعر کے بارے میں نہیں ہو سکتے چاہے ان میں بھی معشوق کے چہرے کو سورج سے تشبیہ کیوں نہ دی گئی ہو۔(۳) شعر میں زمان اور فعل دونوں کی نسبت سے کئی طرح کے توازن قائم کئے گئے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھئے تو دونوں مصرعوں میں الگ الگ صورت حال نظر آتی ہے۔ یعنی ایک طرف تو یہ ممکن ہے کہ سورج اپنے آپ ہی شرمندہ ہو رہا ہو کہ آج پھر معشوق کے برافروختہ چہرے کا سامنا ہوگا۔ دوسری طرح سے دیکھئے تو مصرع ثانی میں جو ہو رہا ہے وہ اس فعل کا نتیجہ ہے جو مصرع اول میں سرزد ہوا۔ افعال میں توازن یہ ہے کہ معشوق تو شراب میں ڈوبا، یا نشے میں ڈوبا اور سورج غرق ہوا۔ دوسرا توازن یہ ہے کہ سورج پہلے ڈوبا (عرق میں)، پھر نکلا (افق پر) تیسرا توازن یہ ہے کہ دونوں مصرعوں میں ’’نکلا‘‘ کے الگ الگ معنی ہیں۔ معشوق نکلا، یعنی باہر آیا اور سورج نکلا، یعنی طلوع ہوا۔اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کا بھی فوری تعلق اس سوال سے ہے کہ شعر میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ بات بھی واضح ہے کہ جو کہا گیا ہے اس کا اطلاق صرف اسی شعر پر ہو سکتا ہے اور اس سے کوئی عمومی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا، لیکن اب کچھ مزید اقوال دیکھئے،(۴) اس شعر میں جس معشوق کا ذکر کیا گیا ہے وہ شراب پینے والا مرد ہے، بلکہ یوں کہیں کہ وہ امرد ہے اور شراب بھی پیتا ہے اور چونکہ وہ امرد ہے لہٰذا اس شعر کا متکلم (اگر متکلم کوعاشق فرض کیا جائے) کوئی عورت نہیں ہے۔(۵) وہ صرف امرد ہی نہیں، بازاری شخص ہے، یا بازاروں میں پھرنے والا فرد ہے، لہٰذا ممکن ہے وہ امرد نہ ہو زن بازاری ہو۔ اس صورت میں بھی متکلم (عاشق) عورت نہیں ہو سکتا۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اقوال نمبر ۴ اور ۵ کی کیفیت شروع کے تینوں بیانوں سے بالکل مختلف ہے، حالانکہ یہ بھی تعبیری بیانات ہی ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ نمبر ۴ اور ۵ کی کیفیت یہ ہے کہ شعر میں جو لسانی اور بیانیہ صورت حال مذکور کی گئی تھی، نمبر ۴ اور ۵ میں اس صورت حال سے کچھ نتیجے نکالے گئے ہیں جن کا شعر کے معنی سے تعلق تو ہے، لیکن یہ نتیجے ہمیں اس بات کے بارے میں کچھ اطلاع نہیں دیتے کہ شعر کن بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے۔ یعنی معشوق کا اوباش ہونا یا امرد ہونا، یا دونوں ہونا، یا زن بازاری ہونا، یا ان میں سے کچھ بھی نہ ہونا، ان باتوں سے شعر پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معشوق کوئی بھی ہو، شعر کا مقدمہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ معشوق کی خوبصورتی کے سامنے سورج ماند پڑ جاتا ہے اور معشوق کے سامنے باہر نکلتے اسے شرم آنے لگتی ہے۔نمبر۴ اور ۵سے ہمیں کچھ معلوماتیا یوں کہیں کہ کچھ علم حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں ہم شعر زیر بحث کی طرح کے دوسرے فن پاروں کے بارے میں بھی اظہار خیال کر سکتے ہیں، لہٰذا یہ بیانات ہمیں تعبیر سے زیادہ تنقید کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یعنی جب ہم کسی فن پارے کی روشنی میں ایسے نتیجے نکالیں جو بظاہر درست ہوں، یا واقعی درست ہوں، لیکن عمومی ہوں اور جن کا براہ راست تعلق فن پارے کے وجود سے نہ ہو (یعنی جن کے بغیر بھی فن پارہ بطور فن پارہ قائم ہو سکتا ہو) تو، ایسے نتائج اوران سے متعلق بحث کو تنقید کے زمرے میں رکھا جانا بہتر ہوتا۔ مزید دیکھئے،(۶) معشوق کے امرد یا زن بازاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ شعر جس زمانے اور جس سماج کی پیداوار ہے اس زمانے میں عورتیں پردے میں رہتی تھیں۔ لہٰذاعشق کرنے کے لئے صرف امرد اور زنان بازاری ہی نصیب تھیں۔ شعر زیر بحث میں معشوق کا شرابی ہونا اور بازاروں میں کھلے بندوں پھرنا اس کے زن بازاری ہونے کے دال پر ہے اور اس کے بارے میں مذکر کے صیغے کا استعمال کرکے شاعر نے ظاہر کر دیا ہے کہ یہ بھی امکان ہے کہ معشوق زن بازاری نہیں بلکہ اوباش قسم کا امرد ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مندرجہ بالا کلام میں ہم تعبیر کی حد سے باہر نکلتے اور تنقید کی مملکت میں داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے اب ہم تعبیر کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور تنقید لکھ رہے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہم ادبی تنقید بھی نہیں، سماجی تنقید لکھ رہے ہیں۔ یعنی یہاں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ بظاہر تو شعر فہمی میں ہماری امداد کے لئے ہے، لیکن درحقیقت شعر سے اس کا کوئی بنیادی یا سچا تعلق نہیں۔ اس بات سے فی الحال ہم کوئی غرض نہ رکھیں گے کہ قول نمبر چھ میں تاریخی یا /اور ادبی سچائی ہے کہ نہیں۔ اغلب ہے کہ بالکل نہیں ہے، لیکن اس وقت یہ معاملہ ہماری بحث سے خارج ہے۔ اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ تعبیر اور تنقید کے نام پر ہمیں بہت سی غیرتنقیدی باتیں سننی اور کہنی پڑتی ہیں۔ یہ تمام تنقید کا، اور بالخصوص اردو تنقید کا المیہ ہے۔(۷) معشوق کا زن بازاری/ امرد /شرابی /اوباش ہونا ہماری شاعری کی اخلاقیات پر بدنما دھبہ ہے۔ ایسے ہی اشعار کی بنا پر ہماری شاعری بدنام ہے، اور ایسے ہی اشعار کی بنا پر لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ اردو شاعری کے معاملات طوائفوں کے معاملات سے آلودہ ہیں۔ہم اس بحث کو یہاں نہ اٹھائیں گے کہ بیان نمبر ۷میں کچھ سچائی ہے کہ نہیں، فی الحال اتنا کہنا کافی بلکہ ضروری ہے کہ بیان نمبر ۷ میں ہم تعبیر کے دائرے سے بالکل باہر نکل گئے ہیں اور سستے قسم کے معلم اخلاق کے روپ میں جلوہ گر ہیں۔ لیکن لطف یہ ہے کہ ہمارا یہ بیان بھی تنقیدی قول کہلاتا ہے، یا تنقیدی قول کہلائےگا اور لطف یہ بھی ہے کہ نمبر۷ پوری طرح سے عمومی بیان ہے، لہٰذا اس کا اطلاق شعر زیر بحث کی طرح کے اور بھی فن پاروں پر ہو سکتا ہے۔اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کی روشنی میں حسب ذیل باتیں کہی جا سکتی ہیں،وہ تعبیری فقرے جو کسی فن پارے کے طرز وجود کے بارے میں ہمیں کچھ بتاتے ہیں یعنی ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ فن پارہ کن بنیادوں اورکن اصولوں پر قائم ہے، انہیں ہم ادبی یا وجودیاتی بیانات کہیں گے۔ کچھ تعبیری اقوال ایسے ہیں جن میں فن پارے کی تعبیر تو ہوتی ہے، لیکن پھر اس تعبیر کی روشنی میں کچھ عمومی نتائج نکالے جاتے ہیں۔ ایسے اقوال کو ہم فلسفیانہ یا علمیاتی کہیں گے۔ اس قسم کے اقوال میں وہ کیفیت زیادہ ہوتی ہے جسے تنقید کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زیادہ تر عمومی انداز کے ہوتے ہیں۔ عمومی نتائج اپنی فطرت ہی کے اعتبار سے ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں فن پارے کی فنی حیثیت سے سروکار بہت کم ہوتا ہے۔ ایک آخری بات یہ کہ عمومی نتائج نکالنے کی گنجائش ان فن پاروں میں زیادہ ہوتی ہے جن میں بیانیہ کا عنصر معتد بہ ہو، یا غالب ہو۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن پارے کے بارے میں کچھ تعبیری تحریریں ایسی ہوں گی جو فن پارے کی ادبی یعنی وجودی حیثیت کے بارے میں اظہار خیال پر زیادہ تر مبنی ہوں گی اور کچھ تعبیری تحریریں ایسی ہوں گی جن میں فن پارے کی فلسفیانہ یعنی علمیاتی حیثیت پر زیادہ کلام کیا گیا ہوگا۔ اگر ہم اپنی پہلی مثال کو دھیان میں لائیں تو ہم دیکھ سکیں گے کہ فیض کی نظم ’’صبح آزادی‘‘ کے بارے میں سردار جعفری کے اقوال کی نوعیت علمیاتی ہے۔ اس بات کی شکایت کے بعد کہ فیض نے اس نظم میں ’’استعاروں کے پردے‘‘ ڈال دیے ہیں، نظم کا آخری مصرع نقل کرکے سردار جعفری نے لکھا،’’یہ بات تو مسلم لیگی لیڈر بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر ساورکر اور گاڈسے بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ انتظار تھا جس کا وہ یہ سحر تو نہیں، کیونکہ اکھنڈ ہندوستان نہیں ملا جسے وہ بھارت ورش اور آریہ ورت بنانے والے تھے۔۔۔ پوری نظم میں اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا کہ سحر سے مراد عوامی آزادی کی سحر ہے اور منزل سے مراد عوامی انقلاب کی منزل۔۔۔ (نظم میں) سب کچھ ہے لیکن نہیں ہے تو عوامی انقلاب اور عوامی آزادی، غلامی کا درد اور اس درد کا مداوا۔ ایسی نظم تو ایک غیرترقی پسند شاعر بھی کہہ سکتا ہے۔‘‘ خلیل الرحمن اعظمی نے صحیح لکھا ہے کہ سردار جعفری کے یہ اقوال، ’’شعر وادب پر ترقی پسند اصولوں کے میکانکی اطلاق کا ایسا نادر اور حیرت انگیز نمونہ ہیں جس کی مثال اردو تنقید کے سرمائے میں نہیں ملتی۔‘‘ لیکن یہ معاملہ صرف ترقی پسند تنقیدی اصولوں کے میکانکی اطلاق کا نہیں ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ فن پارے کے بارے میں علمیاتی بیانات مرتب کرنے میں مزہ تو بہت آتا ہے لیکن جیسا کہ ہم اوپر میر کے شعر کے حوالے سے دیکھ چکے ہیں، ایسے حالات میں یہ خطرہ بھی ہمیشہ لاحق رہتا ہے کہ ہم تعبیر کے میدان سے نکل کر تنقید کے دائرے میں داخل ہوں اور پھر وہاں سے جست لگاکر سماجی اور سیاسی، فلسفہ طرازی کی بھول بھلیاں میں گم ہو جائیں۔ میر کا مشہور شعر ہے،اے آہوان کعبہ نہ اینڈو حرم کے گروکھاؤ کسی کی تیغ کسی کے شکار ہو(دیوان چہارم)اس شعر کی تعبیر میں وجودیاتی اقوال بروئےکار لائے جائیں تو کہا جائےگا کہ آہوان کعبہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو محفوظ زندگی گذارتے ہیں اور جن کے دل دردمندی سے خالی ہیں خواہ وہ اتنے ہی مقدس کیوں نہ ہوں جتنے کہ محاذ کعبہ کے آہو ہوتے ہیں کہ جنھیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ محفوظ اور درد سے خالی زندگی گذارنے والے ان لوگوں کی زندگی بے فائدہ ہے، بلکہ زندگی ہی نہیں ہے۔ انھیں چاہئے کہ حرم کا محفوظ علاقہ، یعنی اپنی بے خوف وخطر زندگی چھوڑیں۔ ان کو ضرور ہے کہ وہ کسی طرح اپنے دل میں دردمندی پیدا کریں اور دل کو درد مند بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنا دل کسی کو ہار دیں۔انھیں خطوط پر مزید اظہار خیال یوں ہوگا کہ یہ شعر جس تہذیب اور جس تصور کائنات کا پروردہ ہے، وہاں کامیابی اور خاص کر دنیاوی کامیابی کچھ معنی نہیں رکھتی۔ اس تہذیب کا تقاضا تھا کہ انسانوں کے دل میں وہ نرمی اور حلیمی اور گداز اور شکستگی ہو جو انھیں ایک طرف تو انسان دوستی کے لائق بنائے اور دوسری طرف ان کے دل اور ان کے باطن کو حقیقت عالیہ کے جلوؤں کو حاصل کرنے کے قابل بنائے۔ مزید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس شعر میں جس طرح کی کائنات کا نقشہ پیش کیا گیا ہے، اس میں اپنے حسن یا اپنے مواہب یا اپنے اکتسابات پر فخر کرنا (اینڈنا) اعلیٰ درجے کے فرد کی صفت نہیں ہے۔ اگر غرور کرنا ہی ہو تو تب غرور کرے جب دل کو درد سے بھر لیا ہو۔ مزید یہ کہا جا سکتا ہے کہ میر نے اسی خیال کو ذرا مختلف پہلو سے یوں لکھا ہے،کب تھی یہ بے جرأتی شایان آہوئے حرمذبح ہوتا تیغ سے یا آگ میں ہوتا کباب (دیوان اول)مندرجہ بالا شعر میں محفوظ زندگی گذارنے والا اکڑتا نہیں اور نہ غرور کرتا ہے۔ وہ بے جرأت ہے، یعنی اینڈنے والے آہو سے بھی بدتر ہے، کیونکہ اینڈنے والے آہو کو اپنی وقعت تو معلوم ہے۔ بے جرأت آہو کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ہے کیا۔ اسی لئے بے جرأت آہوئے حرم کے لئے سخت تر انجام تجویز کیا جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے تو تیغ سے ذبح ہونا یا آگ میں کباب ہونا چاہئے تھا۔ اینڈنے والے آہو کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کا غرور زیست ٹوٹے۔ آل احمد سرور نے دیوان چہارم کے شعر پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھاہے، ’’انسانیت کے لئے میر نے اپنے زمانے کی مروج اصطلاح عشق سے کام لیا ہے جو آدمی کو خود غرضی اور مفاد کے دائرے سے نکال کر ایک بڑے مقصد یا مشن سے آشنا کر دیتا ہے اور جس کی گرمی سے بے مقصد زندگی میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے جو آخر زندگی کے لئے ایک روشنی بن جاتی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ سرور صاحب کے اقوال وجودیاتی منطقے سے باہر نکل کر علمیاتی منطقے میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شعر کی تہذیبی اصطلاحوں کو فلسفیانہ یا سیاسی معنی دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ جو معنی انہوں نے بیان کئے ہیں وہ شعر زیر بحث ہی سے برآمد ہوتے ہیں۔ ان کے بیان کردہ معنی اور ہمارے بیان کردہ معنی میں کچھ زیادہ فاصلہ نہیں، شرط صرف یہ ہے کہ آپ میر کی غزل کے شعر کو تمثیل یعنی Allegory فرض کر لیں۔تمثیل میں ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم ایک شے (جو کبھی کبھی کسی تجربے یا احساس یا کیفیت کا نام ہوتی ہے، مثلاً ’’مسافر‘‘، یا ’’حوصلہ‘‘) کو دوسری شے کا قائم مقام سمجھیں۔ یہاں سرور صاحب ’’آہوان کعبہ‘‘ کو ’’روز مرہ زندگی کا مفاد پرست انسان‘‘ اور ’’تیغ کھانے، شکار ہونے‘‘ کو ’’عشق‘‘ اور خود ’’عشق‘‘ کو ’’بڑے مقصد یا مشن‘‘ کی تمثیل قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ سرور صاحب کی تعبیر کی روشنی میں میر اٹھارویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب کے اردو شاعر کی جگہ بیسویں صدی کے عینیت پسند (Idealist) شاعر معلوم ہوتے ہیں۔سرور صاحب کا طریق کار ہمیں جس نتیجے تک پہنچاتا ہے، وہ شعر کے تہذیبی چوکھٹے کے باہر سہی لیکن وہ شعر کے ساتھ بے انصافی نہیں کرتا کیونکہ جو نتیجہ انھوں نے نکالا ہے، وہ شعر کے لسانی اور استعاراتی چوکھٹے کے باہر نہیں ہے۔ اس نکتے کی مزید تفصیل کے لئے میر کا حسب ذیل شعر ملاحظہ ہو،ناچار ہو چمن میں نہ رہئے کہوں ہوں جببلبل کہے ہے اور کوئی دن برائے گل(دیوان سوم)یہاں پہلی بات یہ کہنی ہے کہ ایک دن اچانک مجھے خیال آیا کہ یہاں ’’برائے گل‘‘ قسمیہ بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی جس طرح ہم ’’برائے ے خدا‘‘ کہتے ہیں، اسی طرح بلبل ’’برائے گل‘‘ کہہ رہی ہے۔ لیکن یہ خیال مجھے ’’شعر شور انگیز‘‘ لکھنے کے مدتوں بعد آیا۔ رومن یا کبسن کا اسی طرح کا ایک واقعہ میں شروع میں درج کر چکا ہوں۔ میرا گمان یہ ہرگز نہیں کہ مجھ میں اور رومن یا کبسن میں کوئی مشابہت ہے۔ وہ آسمان ہے تو میں زمین۔ لیکن میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فن پارے کے طرز وجود کے بارے میں غور وخوض کے امکانات شاید کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اس کے برخلاف فن پارے کے بارے میں فلسفیانہ یعنی علمیاتی اقوال کی حد بہت جلد آ جاتی ہے۔ میر کے اس شعر کا وجودیاتی بیان حسب ذیل ہوگا،(۱) متکلم کو چمن میں ناچاری محسوس ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں ناچاری کی حالت میں چمن میں نہ رہوں گا۔ بلبل جواب دیتی ہے، نہیں برائے گل کچھ دن اور رہ لو۔(۲) متکلم دیکھتا ہے کہ بلبل ناچاری کی حالت میں چمن میں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بلبل چمن ہی میں رہے اور بحال زار نہ رہے۔ وہ بلبل کی حالت میں سدھار لانا چاہتا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ہوتی۔ اب وہ ناچار ہو کر بلبل سے کہتا ہے کہ اس حال میں تو چمن میں نہ رہ۔ بلبل جواب دیتی ہے، نہیں اور کوئی دن برائے گل رہ لوں گی۔(۳) متکلم دیکھتا ہے کہ بلبل ناچاری کی حالت میں چمن میں ہے۔ وہ بلبل سے کہتا ہے کہ ناچار ہوکر چمن میں نہ رہ۔ بلبل جواب دیتی ہے، نہیں، اور کوئی دن برائے گل رہ لوں گی۔(۴) متکلم اور بلبل دونوں ناچار ہیں۔ ناچاری سے تنگ آکر متکلم کہتا ہے کہ آؤ ہم دونوں یہاں سے چلے چلیں۔ بلبل جواب دیتی ہے، نہیں اور کوئی دن برائے گل رہ لیں۔(۵) ’’برائے گل‘‘ کا فقرہ حسب ذیل معنی رکھتا ہے، (۱) گل کی خاطر، یعنی بلبل (یا متکلم) اگر چمن کو چھوڑ دیں تو گل کی خاطر شکنی ہوگی، لہٰذا گل کی خاطر کچھ دن اور چمن میں رہ لیں۔ (۲) گل کے انتظار میں۔ یعنی ابھی گل آیا نہیں ہے لیکن آ بھی سکتا ہے۔ (۳) گل کو دیکھتے رہنے کی خاطر۔ یعنی ناچاری اور زاری ہے تو کیا ہوا، گل کو دیکھ تو سکتے ہیں، اس کا قرب تو حاصل ہے، تقرب نہ سہی۔ (۴) قسمیہ، یعنی متکلم کو بلبل قسم دیتی ہے کہ برائے گل کچھ دن اور ٹھہر جاؤ۔ یا قسم کھاکر کہتی ہے کہ گل کی قسم، ابھی کچھ دن اور رہوں گی۔ ظاہر ہے کہ یہ شعر عشق میں غم اور ابتلا کے باوجود ثابت قدمی اور رجا، معشوق سے دلی لگن اور اپنی حالت کو سدھارنے کے جذبے کو انتہائی شور انگیز اور بڑی حد تک ڈرامائی انداز میں پیش کرتا ہے۔علمیاتی تعبیر (۱)اب اسی شعر کو ترقی پسند نظریے کی روشنی میں پڑھیں، یا اسے عوامی انقلاب کے تصورات کا حامل قرار دینا چاہیں تو نتائج حسب ذیل ہوں گے،(۱) شعر میں متکلم کوئی نہیں، شاعر خود متکلم ہے۔ میر محمد تقی میر شاعر کا ذہن انقلاب پسند اور انسان دوست تھا۔ میر ہمیں اس شعر کے ذریعہ انقلابی جد وجہد میں سرگرم رہنے اور نامساعد حالات کے باوجود انقلابی آدرش سے وفاداری قائم رکھنے اور نامساعد حالات کو بدلنے کی سعی کرتے رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔(۲) ’’چمن‘‘ سے مراد ہے میدان عمل، مثلاً وطن عزیز، جہاں انقلاب برپا کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔(۳) ’’گل‘‘ سے مراد ہے انقلابی آدرش، یا انقلاب کا لمحہ۔(۴) ’’بلبل‘‘ سے مراد ہے انقلابی، یا انقلاب پسند عوام کا نمائندہ جو جد وجہد انقلاب میں مصروف ہے۔(۵) ’’چمن میں نہ رہئے‘‘ سے مراد ہے انقلابی جد وجہد میں تھک ہار کر بیٹھ جانا۔(۶) ’’ناچار ہوکر‘‘ رہنے سے مراد ہے سامراجی یا بیرونی یا غیرمنصف اقتدار کے ہاتھوں مجبور ومحکوم رہنا۔(۷) ’’کہوں ہوں جب‘‘ کا فاعل انقلابی ہیرو (’’بلبل‘‘) کا ساتھی ہے جو ہمت چھوڑنے پر مائل ہے۔علمیاتی تعبیر (۲)میر کے شعر کی ایک تعبیر حسب ذیل انداز میں بھی ہو سکتی ہے۔ اگر علمیاتی تجزیۂ اول کو کسی سیاسی اور سماجی نقطۂ نظر کا اظہار کہا جائے تو علمیاتی تجزیۂ دوم کو سماجی، سیاسی، نفسیاتی اور انسانیاتی (Anthropological) تصورات کا حامل کہا جا سکتا ہے۔(۱) سترہویں صدی کے کچھ شعرا کی کچھ غزلوں کو چھوڑکر اردو غزل میں معشوق کی جنس عام طور پر واضح نہیں کی جاتی۔ یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ معشوق طبقۂ اناث ہی سے ہوگا بشرطیکہ کھلے ہوئے شواہد اس کے خلاف نہ ہوں۔ عاشق کو تقریباً ہمیشہ مرد قرار دیتے ہیں مگر بلبل اور گل پر مبنی شعروں میں صورت حال برعکس ہے۔ ’’بلبل‘‘ عاشق ہے اور وہ مونث ہے، ’’گل‘‘ معشوق ہے اور وہ مذکر ہے۔مرد عاشق اور غیرمتعین معشوق پر مبنی غزل میں معشوق کو تقریباً ہمیشہ سنگ دل، یا ناممکن الحصول یا بے وفا، عاشق کے حال سے بے پروا دکھایا جاتا ہے۔ توقع کی جا سکتی تھی کہ معشوق کی جنس بدل جانے کی صورت میں اس کا کردار بھی بدل جانا چاہئے تھا۔ لیکن شعر زیر بحث میں معشوق کو حسب معمول سنگ دل نہیں تو بے پروا ضرور دکھایا گیا ہے۔ یعنی بلبل کی تقدیر میں دکھ بھوگنا ہی لکھا ہے۔ پدری اور مرد محکوم معاشروں سے ہم اور کیا توقع کر سکتے ہیں۔عاشق اگر مرد ہے تو اس کا معشوق (جو عموماً عورت ہوگا) اپنے عاشق کے ساتھ ہرطرح کا برا سلوک کرتا ہے، یا پھر وہ عاشق سے اتنے فاصلے پر ہوتا ہے کہ اس کی ایک جھلک بھی محال ہو جاتی ہے۔ یعنی ایسے اشعار میں عورت کو نامنصف اور منفی کردار کا حامل دکھایا جاتا ہے۔ اب جب معشوق بے شک مرد ہے اور عاشق بے شک عورت، تو بھی عورت ہی مورد جور ٹھہرتی ہے، لہٰذا اردو غزل کا مزاج عورت دشمنی کا نہیں تو عورت مخالفت کا ضرور ہے۔(۲) اگر ’’برائے گل‘‘ کا فقرہ قسمیہ ہے، جیسا کہ نحو اور محاورہ کی رو سے بالکل ممکن ہے، تو ’’گل‘‘ کی قسم دینا یا کھانا، گویا ’’گل‘‘ معشوق ہی نہیں خدا بھی ہو، ہندوستانی سماج کی رسم کے عین مطابق ہے جہاں عورت کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنا ’’مجازی خدا‘‘ یا ’’پران ناتھ‘‘ یا ’’سرتاج‘‘ یا ’’پتی‘‘ یا ’’وارث‘‘ کہے۔ اس تعبیر کی رو سے اردو غزل کا مزاج اور بھی پدری اور مرد مرکوز ٹھہرتا ہے۔یہاں اولین اہم بات یہ ہے کہ شعر کی مندرجہ بالا دونوں تعبیرات اپنی اصل کے لحاظ سے افلاطونی ہیں لیکن دونوں ہی کو شعر کے محاسن سے کوئی علاقہ نہیں۔ ان تعبیروں کے بنانے والے کو شاید اس بات کا احساس بھی نہیں کہ شعر میں کئی اور معنی ہو سکتے ہیں، یا شعر کی ڈرامائیت، شور انگیزی، نغمگی، روانی، مکالمے کی برجستگی وغیرہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن پر توجہ صرف ہو سکتی ہے۔ تعبیر اول کے بنانے والے کی نظر میں شعر کا یہی حسن کافی ہے کہ اس میں عوامی انقلاب کے بارے میں بہت ہمت انگیز اور ولولہ خیز باتیں کہی گئی ہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس، اس تعبیر کے مرتب کرنے والے کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ اس تعبیر کی روشنی میں میر اٹھارویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب کے اردو شاعر کی جگہ بیسویں صدی کے انقلاب پسند یا بنیادی تبدیلی پسند (Radical) شاعر معلوم ہوتے ہیں۔یہ بھی ملحوظ رہے کہ مندرجہ بالا تعبیریں ان تمام تعبیر کنندگان کے لئے کافی اور مناسب ہیں جو فن پارے کی تعبیروتنقید کو فن پارے کا علمیاتی مسئلہ قرار دیتے ہیں، یعنی جن کی نظر میں نقاد کا فرض یہ ہے کہ وہ اس فلسفیانہ، سماجی، یا سیاسی پیغام کو تلاش اور آشکار کرے جو فن پارے میں ظاہر یا مخفی طور پر موجود ہے۔ یہ بات غیر اہم ہے کہ جو نقاد کسی فن پارے میں فلسفیانہ، سماجی یا سیاسی، یعنی علمیاتی مافیہ تلاش کر رہا ہے، خود اس کے معتقدات کیا ہیں۔مثال کے طور پر، بلبل اور چمن کی جو تعبیر اوپر تعبیر اول کے طور پر بیان ہوئی اس کی رو سے شعر کا اصل مافیہ انقلاب کے لئے جدوجہد ہے اور ضروری نہیں کہ یہ جدوجہد صرف مارکسی یا اشتراکی انقلاب (سردار جعفری کی اصطلاح میں عوامی انقلاب) کے لئے ہو۔ وہ اسلامی انقلاب، چینی انقلاب، فلسطینی انقلاب، کوئی بھی انقلاب ہو سکتا ہے ہے، جس کی تمثیل (Allegory) اس شعر میں ہے۔سردار جعفری نے فیض کی نظم ’’صبح آزادی‘‘ کے بارے میں غلط نہیں کہا تھا کہ ایسی نظم تو مسلم لیگی، مہاسبھائی، کوئی بھی کہہ سکتا ہے۔ سردار جعفری کے اس قول میں بہت بڑا تنقیدی نکتہ پنہاں ہے کہ فن پارے کا سیاسی مافیہ کسی بھی شخص کے لئے کارآمد ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنے کام میں لانا چاہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ شعر زیر بحث کی تعبیر دوم تانیثی نقطۂ نظر سے مرتب کی گئی ہے۔ تانیثی نظریات کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں، لیکن تانیثی فکر کا پہلا مقدمہ یہ ہے کہ کسی متن یا فن پارے کو عورتیں جس طرح پڑھتی ہیں، مرد اس طرح نہیں پڑھ سکتے۔ کسی متن یا فن پارے میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کے وجود کا احساس بھی مرد کو نہیں ہوتا اور عورتوں کے لئے وہ آئینہ ہوتی ہیں کیونکہ مردوں کے خیال میں صنفی آویزش (Gender Conflict) کوئی شے نہیں۔ اسی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عورت کے بنائے ہوئے فن پاروں کے بھی تمام مضمرات کو مرد نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ عورت جس طرح دنیا کو دیکھتی ہے، اس طرح کا احساس اور تجربہ مرد کو نہیں ہو سکتا۔ہم لوگ تعلیمی نصابات میں مدتوں سے غزل پڑھا رہے ہیں اور پڑھنے والوں میں لڑکیاں لڑکے دونوں ہوتے ہیں لیکن یہ خیال کسی کو نہیں آتا کہ غزل میں تذکیر وتانیث کی آویزشوں (Gender Conflicts) کے بھی پہلو ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی ہم پر واضح رہنی چاہئے کہ تانیثی مطالعات بھی علمیاتی نوعیت کے ہیں اور فنی محاسن سے لطف اندوزی، یا ان کا تجزیہ، نہ تو تانیثی نقاد کا کوئی اہم سروکار ہے اور نہ کسی بھی ایسے نقاد کا جس کی اولین دلچسپی فن پارے میں ظاہر یا مخفی پیغام سے ہو۔لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں تعبیر (اول) کی رو سے میر کی تاریخی اور تہذیبی شخصیت کو بیسویں صدی میں منتقل کر دیا گیا ہے، وہاں تعبیر (دوم) کی رو سے میر اپنے ملک، اپنی صدی اور اپنی تہذیب میں قائم رہتے ہیں۔ یعنی تانیثی تصورات جادو کی چھڑی نہیں ہیں کہ فن پارے پر تانیثی تصورات کا اطلاق کرکے ہم اس کے داخلی خد وخال ہی بدل ڈالیں۔علمیاتی قرأت کی مجبوریاںادبی تخلیقات کے مطالعے میں وجودیاتی مباحث کو مقدم رکھنے والوں کے سامنے حیص بیص یا مخمصے یعنی Dilemma کے کئی مواقع بھی آتے ہیں۔ میں نے اوپر شروع میں لکھا ہے کہ علمیاتی نتائج کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ انھیں فن پارے کی فنی حیثیت سے سروکار بہت کم ہوتا ہے۔ لیکن علمیاتی بیانات میں کچھ ایسا چٹخارا بھی ہوتا ہے کہ کم ہی نقاد اس کی چیٹک سے بچ سکے ہیں۔ عمومی علمیاتی نتائج نکالنے کی گنجائش ان فن پاروں میں زیادہ ہوتی ہے جن میں بیانیہ کا عنصر معتدبہ ہو، یا غالب ہو اور چونکہ تخلیقی ادب میں بیانیہ اکثر موجود ہوتا ہے، لہٰذا علمیاتی موشگافیاں نکالنے کے مواقع بھی قدم قدم پر مہیا رہتے ہیں اور جب ہم افسانے یعنی فکشن کی تعبیر یا تنقید کرنے بیٹھتے ہیں تو ہمارا مخمصہ ہماری مجبوری بن جاتا ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بیانیہ چاہے جتنا بھی خیالی اور غیرواقعی ہو، اس کی تعبیر ہمیں دنیا کے حقیقی اور واقعی قضایا کی طرف کھینچتی ہوئی لے جاتی ہے۔ بیانیہ کو انسانی دنیا میں کچھ ایسا مرتبہ حاصل ہے کہ اسے پڑھتے وقت ہمیں بار بار پوچھنا پڑتا ہے کہ اس واقعے کی، اس منظر کی، اس کردار کی معنویت انسانی دنیا کے لحاظ سے کیا ہے؟ فلاں بات اس طرح کیوں انجام پذیر ہوئی، اس طرح کیوں نہ ہوئی؟ فلاں کردار نے فلاں قدم کیوں اٹھایا اور اس کے برخلاف کیوں نہ کیا؟ یہ کردار اس قدر دلکش ہوتے ہوئے بھی ہمیں وثوق انگیز کیوں نہیں لگتا؟ یہ کردار اتنا برا ہوتے ہوئے بھی اتنا دلکش کیوں ہے؟ وغیرہ۔ لہٰذا فکشن کے معبر اور نقاد کی مجبوری ہے کہ وہ جس بھی فکشن پر اظہار خیال کرے اس کے سماجی یا سیاسی معنی کو بھی معرض بحث میں لائے۔ فکشن کی ایک بڑی قوت یہ ہے کہ وہ قاری کو انسانی اور دنیاوی سطح پر گرفت میں لے لیتا ہے، لہٰذا فکشن کی تعبیر کو علمیاتی ہونا ہی پڑتا ہے۔اسی معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ فکشن کی رسائی شاعری اور ڈراما سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال چارلس ڈکنس کے ناول ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مصنف کی موت کے بعد اس کی مقبولیت میں کمی آ جاتی ہے۔ ڈکنس کا انتقال 1870 میں ہوا۔ اس کے بعد صرف بارہ سال میں، یعنی 1882تک ڈکنس کے ناولوں کے بیالیس لاکھ چالیس ہزار نسخے فروخت ہوئے۔ اس زمانے میں ٹینی سن (Tennyson) زندہ تھا اور اپنی شہرت کی معراج کمال پر تھا، لیکن کتابوں کی فروخت اور کتابوں کی آمدنی کے باب میں ڈکنس نے پس مرگ بھی ٹینی سن کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا اور ابھی تو بہترین فروش (best seller) کا دور آنا باقی تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 1928 آتے آتے جاسوسی اور سنسنی خیز ناول و افسانہ نگار ایڈگروالیس (Edgar Wallace) کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انگریزی میں شائع ہونے اور فروخت ہونے والی کتابوں سے انجیل کو منہا کر دیا جائے تو بقیہ کتابوں میں ہر چوتھی کتاب ایڈگروالیس کی تھی۔اور یہ بات اب صرف سنسنی خیز فکشن تک محدود نہیں۔ اب تو انعامات کا زمانہ ہے۔ کسی ناول کو کوئی بڑا انعام مثلاً مین بوکر انعام (Man Booker Prize) یا بین الاقوامی مین بوکر انعام (International Man Booker Prize) یا پیولٹزر انعام (Pulitzer Prize) مل جائے تو اس کی فروخت لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ نوبل انعام کی بات ہی کیا ہے۔ ہم ہندوستانی، اور خاص کر اردو والے ایسی مقبولیت کا تصور نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ تو ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اردو معاشرے میں عمومی طور پر قرۃ العین حیدر، انتظار حسین اور عبد اللہ حسین کا نفوذ ان کے معاصر شعرا سے بڑھ کر ہے اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ منٹو کا کلیات آج سرحد کے دونوں طرف کے شعرا کے کلیات سے زیادہ فروخت ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، شاعری کے مقابلے میں جلد ترجمہ ہو سکنے کے باعث فکشن کی رسائی جلد از جلد اپنی اصل زبان کے حلقوں سے آگے تک بھی ہو جاتی ہے۔پڑھنے والوں کے مختلف حلقوں میں بہت زیادہ اور بہت دور تک پھیلنے کی صلاحیت رکھنے کے باعث فکشن میں بیان کردہ واقعات، صورت حالات اور کردار فوری سطح پر متوجہ اور برانگیخت کرتے ہیں اور پڑھنے والے ان کے بارے میں گفتگو بھی فوری سطح پر کرتے ہیں۔ اب فکشن صرف چند ’’پڑھے لکھوں‘‘ کی ملکیت نہیں رہ گیا ہے۔ یہ ہمارا مسئلہ ہے کہ علمیاتی سطح پر کلام کرتے وقت بیانیہ فن پارے کے فنی، وجودیاتی نکات سے اپنی وفاداری بھی قائم رکھیں تاکہ فن پارے کا پورا حق ادا ہو سکے۔ میں یہاں دو بہت مشہور افسانوں پر مختصر تبصرہ کرکے بات ختم کردوں گا۔بڑے گھر کی بیٹی، چھوٹا کردار’’چھوٹا کردار‘‘ کہنے سے میرا مطلب یہ نہیں کہ پریم چند نے اسے چھوٹی طبیعت یا قابل اعتراض طینت کا حامل دکھایا ہے۔ ’’چھوٹا کردار‘‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ افسانہ نگار کی نظر میں گھر کے اندر عموماً اور سسرال میں یقیناً عورت کا مرتبہ یہی ہے کہ وہ چھوٹی بن کے رہے۔ بڑے گھر کی بیٹی کی بڑائی اسی میں ہے کہ وہ سب سے دب کر رہے، مار کھائے لیکن پھر بھی دب کر رہے۔ آنندی کو اس کا دیور ذرا سی بات پر جھلاکر کھڑاؤں کھینچ مارتا ہے۔ پہلے تو جب آنندی نے اس کے طعنے کا جواب ترکی بہ ترکی دیا تو دیور نے ’’تھالی اٹھاکر پٹک دی اور بولا، جی چاہتا ہے تالو سے زبان کھینچ لوں۔‘‘ جب آنندی نے کچھ اور جواب دیا تو، اب نوجوان اجڈ ٹھاکر سے ضبط نہ ہو سکا۔ اس کی بیوی ایک معمولی زمیندار کی بیٹی تھی۔ جب جی چاہتا تھا، اس پر ہاتھ صاف کر لیا کرتا تھا۔ کھڑاؤں اٹھا آنندی کی طرف زور سے پھینکا اور بولا، ’’جس کے گمان پر پھولی ہوئی ہو اسے بھی دیکھوں گا اور تمھیں بھی۔‘‘ آنندی نے ہاتھ سے کھڑاؤں روکا۔ سر بچ گیا مگر انگلی میں سخت چوٹ آئی۔۔۔ آنندی خون کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔اس مخصمے کا انفصال یوں ہوتا ہے کہ آنندی اپنے شوہر سے دیور کی شکایت کرتی ہے تو شوہر اپنا گھر الگ کرنے کا تہیہ کر لیتا ہے۔ ادھر دیور بھی بڑے بھائی کی خفگی سے متاثر ہوکر گھر چھوڑنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ آنند ی منت سماجت کرکے دونوں کا میل کرا دیتی ہے۔ افسانہ نگار ہمیں بتاتا ہے، بینی مادھو سنگھ باہر سے آرہے تھے۔ دونوں بھائیوں کو گلے ملتے دیکھ کر خوش ہو گئے اور بول اٹھے، ’’بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ بگڑتا ہوا کام بنا لیتی ہیں۔‘‘ گاؤں میں جس نے یہ واقعہ سنا، ان الفاظ میں آنندی کی فیاضی کی داد دی، ’’بڑھے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔‘‘ بڑا مزا اس ملاپ میں ہے جو صلح ہو جائے جنگ ہوکر، کی گلابی گرم مسرت کے جوش میں نہ تو افسانہ نگار، اور نہ افسانے کا کوئی کردار یہ بتانے کی ضرورت سمجھتا ہے کہ کیا بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں کہ وہ سسرال میں باورچنوں کی طرح کھانا پکاتی ہیں، دیور کے طعن وتعریض سہتی ہیں، دیور کی مار کھاتی ہیں اور سر کے بجائے انگلی نشانہ ہو تو خدا کاشکر بھیجتی ہیں؟ کیا بدسلوکی پر انھیں آزردہ ہونے کا حق نہیں کیونکہ ان کے ساتھ جو بھی سلوک ہو، اسے بد نہیں کہا جا سکتا؟ افسانہ نگار ہمیں بتاتا ہے کہ، ’’ٹھاکر صاحب لڑکے کا غصہ دھیما کرنا چاہتے تھے مگر یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ لال بہاری سے کوئی گستاخی یا بے رحمی وقوع میں آئی۔‘‘ لڑکے کا غصہ دھیما کرنے کی کوشش تو مناسب تھی کیونکہ لڑکا، لڑکا ہی ہے، لیکن باہر کی آئی ہوئی لڑکی کا دل رکھنے اور اسے غیریت کا احساس نہ ہونے دینے کی خاطر کوئی دلجوئی کا کلمہ جھوٹے منھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بڑے گھر کی بیٹیاں وہی بہوئیں کہلائیں گی جو اپنی توہین اور اپنے اوپر تشدد کو گھول کر پی جائیں۔ افسانہ نگار اسے آنندی کی ’’فیاضی‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔افسانہ نگار، یا اس کا کوئی کردارہمیں یہ بھی نہیں بتاتا کہ اگر بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی کہ بیان ہوئیں تو ایسا کیوں ہے؟ ممکن ہے افسانہ نگار کی نظر میں یہ ایک کائناتی حقیقت ہو کہ بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں یا انھیں ایسی ہی ہونا چاہئے جیسی کہ وہ اس کے افسانے میں نظر آتی ہیں۔ یا ممکن ہے افسانہ نگار کا خیال کچھ اور ہو، لیکن اس نے بڑے گھر کی بیٹی کا متذکرہ بالا روپ یہ سمجھ کر پیش کیا ہو کہ میرے قاری اسی روپ کو پسند کریں گے۔مندرجہ بالا نتائج تک پہنچنے کے لئے ہمیں تانیثی خیالات کا حامل ہونا ضروری نہیں۔ کوئی بھی بشر دوست، منصفی میں یقین رکھنے والی قرأت ہمیں انھیں نتیجوں تک لے جائے گی۔ یہ ضرور ہے کہ تانیثی تصورات پر کوئی بنیادی کتاب مثلاً کیٹ ملٹ (Kate Millet) کی کتاب (Sexual Politics)، اور وہ بھی نہ سہی توور جینیا وولف (Virginia Wolf) کی چھوٹی سی کتاب A Room With A View پڑھ لئے جانے کے بعد ہماری توجہ پدری سماج کے بعض بالکل سامنے کے پہلوؤں کی طرف ذرا فوری طور پر منعطف ہونے لگی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر چہ یہ تجزیہ ہمیں افسانے کی خوبی یا خرابی کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا لیکن ہم اسے خراب ہی افسانہ کہتے ہیں، کیونکہ ہمیں یہ بات ناگوار گذرتی ہے کہ افسانہ نگار نے عورت ذات کی بڑائی اس بات پر محمول رکھی ہے کہ وہ اپنے وجود کو مرد کے استبداد کا محکوم رکھے۔معلوم ہوا کہ افسانہ (یا بیانیہ) فنی اعتبار سے اچھا، یا برا، جیسا بھی ہو، اگر وہ ہمارے معتقدات اور سیاسی اور سماجی خیالات کو مطمئن نہیں کرتا تو پھر ہم اسے ناپسند ہی کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ میں ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کو پریم چند کے خراب افسانوں میں شمار کرتا ہوں اور میرے پاس اس کے لئے جو دلائل ہیں وہ سراسر ادبی ہیں۔ ان کی تفصیل میں جانا فی الوقت غیرضروری ہے۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ اس افسانے کے وجودیاتی پہلوؤں سے بحث اس کے علمیاتی پہلو پر موخر ٹھہرتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ مندرجہ بالا تجزیے میں تانیثیت کی ہلکی سی بو ہے لہٰذا اس طریق کار کو ترک کرکے کسی اور تنقیدی نظریے یا کسی اور فکری نظام کی رو سے بھی ہمیں دیکھنا چاہئے کہ افسانہ کیسا ہے۔ ممکن ہے تب جو نتائج نکلیں وہ کچھ اور ہوں۔’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کا جو تجزیہ ابھی پیش کیا گیا تھا اسے آپ تانیثی کہیں یا، ’’ثقافتی مطالعات‘‘ کی مثال کہہ لیں، زیر بحث افسانے کی حد تک ایک ہی رہےگی۔ ’’ثقافتی مطالعات‘‘ کو انگلستان میں Culture Studies کہتے ہیں۔ ریمنڈولیمز (Raymond Williams) نے مارکس کا لحاظ رکھتے ہوئے اس طریق کار کو Cultural Materialism (ثقافتی مادہ پرستی) کہا تھا۔ یہ نام اب بھی انگلستان میں کہیں کہیں سنا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے محاورے میں اسی کو New Historicism (نئی تاریخیت) کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی طریق کار کے ذرا ذرا مختلف پہلو ہیں۔ تانیثی تنقید کا بھی طریق کار یہاں اکثر چل جاتا ہے۔ لیکن Cultural Materialism کو ایک طرح کا ڈھیلا ڈھالا ترقی پسند ماڈل کہیں تو اس میں تانیثیت کی گنجائش نہ نکلےگی۔ بہرحال، ثقافتی مطالعات کہیں یا کچھ اور نام دیں، ان سب کا سروکار فن پارے کے علمیاتی پہلوؤں ہی سے ہوتا ہے۔ان میں سے بعض لوگ تو صاف صاف کہتے ہیں کہ ہمارے حساب سے ’’اعلیٰ‘‘ (High) تحریریں، ہر دل عزیز یا کم رتبہ تحریریں، سب برابر ہیں کیونکہ ہمارا مطلب تو ان ثقافتی وغیرہ تصورات سے ہے جو کسی متن میں ہیں یا ڈھونڈے جا سکتے ہیں، لہٰذا یہ بات (جو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں) ملحوظ رہے کہ فن پارے یا متن کی وجودیات سے بحث ہو تو جو نتیجہ نکلےگا وہ صرف اس پارے پر صادق آئےگا۔ لیکن فن پارے یا متن کی علمیات سے بحث ہو تو نتیجے عمومی ہوں گے اور عموماً ایک ہی سے نکلیں گے۔ فرق صرف تفصیل اور جزئیات کا ہوگا۔بہرحال، اگر ثقافتی مادہ پرستی /مطالعات کے نقطۂ نظر سے ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کو پڑھیں تو پہلی بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس افسانے میں اقتدار اور دباؤ کا ایک ہی ماڈل نہیں ہے۔ یعنی عورت اور مرد کے درمیان اقتداری رشتے کے علاوہ اس افسانے میں اور کئی طرح کے اقتداری رشتے ہیں۔ مندرجہ ذیل پر غور کریں،(۱) افسانہ نگار ہمیں بتاتا ہے، ’’آنندی رونے لگی، جیسے عورتوں کا قاعدہ ہے، کیونکہ آنسو ان کی پلکوں پر رہتا ہے۔ عورت کے آنسو مرد کے غصے پر روغن کا کام کرتے ہیں۔‘‘ یہاں افسانہ نگار ہمیں مطلع کرنا چاہتا ہے کہ عورت کے پاس بھی اقتدار اور دباؤ کا ایک ہتھیار ہے، یعنی اس کے آنسو۔ لیکن یہ آنسو مرد کے غصے کو بڑھانے کا کام تو کرتے ہیں، خود عورت کے لئے شاید کوئی مثبت نتیجہ نہیں فراہم کرا سکتے۔(۲) بوڑھا ٹھاکر کہتا ہے، ’’عورتیں اسی طرح گھر کو تباہ کر دیتی ہیں۔ ان کا مزاج بڑھانا اچھی بات نہیں۔۔۔ لال بہاری تمھارا بھائی ہے۔ اس سے جب بھی بھول چوک ہو تم اس کے کان پکڑو، مگر۔۔۔‘‘ یہاں ’’مگر۔۔۔‘‘ کے معنی ہیں کہ بیوی کی خاطر بھائی کو نیچا دکھانا غیرمناسب ہے۔ اقتدار کا دوسرا مرکز آنندی کے شوہر کا باپ ہے لیکن اس کا اقتدار دونوں بیٹوں کی وجہ سے ہے۔ یعنی مرد سے مرد کو اقتدار ہوتا ہے۔(۳) افسانہ نگار ہمیں مطلع کرتا ہے کہ گاؤں میں یہ خبر پھیلی کہ بھائی بھائی میں جھگڑا ہوا ہے تو عورتوں کا دل بھی خوش ہوا اور گاؤں کے مرد بھی پھولے نہ سمائے۔ گاؤں کے سماج میں کئی ایسے تھے جنھیں کسی کی بدنامی پر مسرت ہوتی تھی۔ کئی ایسے تھے جو بوڑھے ٹھاکر اور اس کے لڑکوں سے جلتے تھے۔ کئی ایسے بھی تھے جو اس بات پر خفا تھے کہ بوڑھا ٹھاکر اپنے بڑے بیٹے کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا۔ یہ پورا سماج بھی ایک اقتداری طبقہ تھا کیونکہ ٹھاکر کو یہ خیال رکھنا پڑتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جس سے مجھے گاؤں والوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔ یہ صرف ’’چھوٹی سی دنیا‘‘ کا معاملہ نہ تھا اور یہ معاملہ صرف ایک گاؤں پر محدود نہ تھا۔ افسانہ نگار ہمیں اس افسانے کے ذریعہ اوائل بیسویں صدی کے دیہاتی سماج کے اقتداری ڈھانچے سے روشناس کراتا ہے۔اس تیسرے نکتے کو ہم ’نئی تاریخیت‘‘ سے بھی مستفاد کہہ سکتے ہیں۔ ’’نئی تاریخیت‘‘ کے بنیادی نکتے صرف دو ہیں۔ اول یہ کہ کسی فن پارے کا مصنف اپنے زمانے کے اقتدار دار طبقے کے خلاف کوئی موقف اختیار کرتا نظر آتا ہے کہ نہیں؟ یعنی کیا مصنف اپنے زمانے کی سرمایہ دار اور غیرانقلاب پسند طاقتوں کی رایوں کا محکوم تھا یا اپنی آزاد رائے بھی رکھتا تھا؟ اور دوسرا یہ کہ کیا مصنف نے یہ رویہ شعوری طور پر اختیار کیا ہے، یا مصنف کے ارادے کے بغیر یہ رویہ اس کے فن پارے میں جھلکتا ہے؟ لہٰذا ’نئی تاریخیت‘ کسی فن پارے کو اپنے زمانے کا پابند لیکن جدید تصورات کا حامل قرار دینا چاہتی ہے۔پریم چند کا زیر بحث افسانہ پہلی بار1910 میں شائع ہوا، یہ اطلاع بھی ’’نئی تاریخیت‘‘ کے لئے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اسی کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستانی گاؤں کے سماج کے اقتداری رشتوں، اور عورت مرد کے دو طبقوں کے درمیان اقتداری رشتوں کے بارے میں پریم چند بہت محتاط طور پر، لیکن بے شک یہی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ اس اقتداری ڈھانچے کے قائم رہنے کے حق میں ہیں جو اس وقت موجود تھا۔لہٰذا ’’نئی تاریخیت‘‘ کی بھی رو سے ہمارے نتائج فنی معیار سے افسانے کی بھلائی برائی کے بارے میں نہیں، بلکہ افسانے میں مضمر یا ظاہر سماجی سیاسی تصورات سے متعلق ہیں۔ اور افسانے کے بارے میں ہماری منفی فیصلہ انھیں علمیاتی بنیادوں پر قائم ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند نقاد ہو یا تانیثی نقاد، یا ثقافتی مادہ پرستی اور/یا ’’نئی تاریخیت‘‘ کا حامی نقاد ہو، ان سب کی نظر میں وہی تحریر فنی طور پر کامیاب ٹھہرے گی جس میں انھیں تصورات کا واضح یا مضمر اظہار ہو جنھیں نقاد درست اور لائق اظہار سمجھتا ہو۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لئے ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کے بارے میں مندرجہ ذیل نکات پر غور کیجئے،(۱) اس افسانے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ پیداواری رشتوں اور دولت کی بنیادوں پر قائم سماج میں سب سے زیادہ کمزور وہ ہوتا ہے جو دولت اور اشیا کی پیداوار میں کوئی دخل نہیں رکھتا۔ عورتیں چونکہ نہ تو دولت مند ہیں اور نہ ہی وہ کسی شے کی پیداوار میں عمل دخل رکھتی ہیں، لہٰذا وہی سب سے کمزور ٹھہرتی ہیں۔(۲) جس نظام کی بنیاد ذاتی ملکیت (Private Property)، وراثت میں ملی ہوئی جائداد، اور دولت کی نامنصفانہ تقسیم پر قائم ہو، وہاں عمومی بے انصافی بھی عام ہوتی ہے۔ آنندی کے ساتھ جو بے انصافی ہوئی وہ اسی کی ایک مثال ہے۔ظاہر ہے کہ افسانہ ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کے بارے میں مندرجہ بالا اقوال کو ترقی پسند نقطۂ نظر کا اظہار کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اب مندرجہ ذیل بیان پر غور کیجئے،(۳) صاحب اقتدار طبقے کا سب سے بڑا ہتھیار خود وہ طبقہ ہے جس پر وہ اپنا اقتدار مسلط کرتا ہے۔ وہ محکوم طبقے کو طاقت کے کھیل میں اپنا سہیم بنا لیتا ہے۔ یعنی وہ محکوم طبقے کو یقین دلا دیتا ہے کہ تمھاری بھلائی محکومی ہی میں ہے اور تم دراصل محکومی کی زندگی ہی میں پھلتے پھولتے ہو۔ زیر بحث افسانے کی آنندی کا کردار اسی طریق کار کی مثال ہے۔ وہ سسرال میں دکھ اٹھاتی اور ذلیل ہوتی ہے لیکن بالآخر محکومی ہی کو اختیار، بلکہ پسند کرتی ہے۔مندرجہ بالا تجزیہ تھوڑا بہت ترقی پسندانہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ دراصل ترقی پسند نظریے سے ایک بالکل مختلف، بلکہ متضاد نظریے کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے جسے ہم پس نوآبادیاتی (Post۔ colonial) نظریہ کہہ سکتے ہیں۔ اس تجزیے کی عملی تصدیق کے لئے آپ ہندوستان میں انگریزی راج کے زمانے کی مثالیں بآسانی پیش کر سکتے ہیں۔ اوپر ہم نے پریم چند کے افسانے ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کے جتنے تجزیے پیش کئے ہیں، انھیں تھوڑی بہت ترمیم کے بعد راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ’’گرہن‘‘ پر بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔گرہن، اردو کا ’’مظلوم‘‘ افسانہ، ’’گرہن‘‘ کو ’’مظلوم‘‘ افسانے کا خطاب وارث علوی نے عطا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فاروقی نے بیدی کے بارے میں ’’گرہن‘‘ کے حوالے سے کہا ہے کہ بیدی اپنے عورت کرداروں کو پست اور پس ماندہ اور دکھ اٹھاتا ہوا ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ وارث علوی کا خیال ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ آیا واقعی بیدی اپنے عورت کرداروں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، فاروقی نے اس ضمن میں ’’گرہن‘‘ کا ذکر کرکے خود ’’گرہن‘‘ کے ساتھ ظلم کیا ہے۔فی الحال میں اس بات سے بحث نہ کروں گا کہ بیدی کا رویہ عورت کرداروں ے بارے میں کیا واقعی ایسا ہے جیسا میں سمجھا ہوں، اور نہ اس بات کو اٹھاؤں گا کہ ’’گرہن‘‘ عورتوں کے بارے میں درحقیقت کیا کہتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ رائے جو ہم دونوں نے ’’گرہن‘‘ کے بارے میں قائم کی ہے، افسانے کی فنی خرابیوں کے بارے میں قاری کو کچھ نہیں بتاتی۔ میں نے اتنا ضرور کہا ہے کہ ’’زبان واسلوب کی غیرمعمولی خوبصورتی کے باعث ’گرہن‘ نہایت اثر انگریز افسانہ ہے۔ ورنہ میں اسے بیدی کے ناکام افسانوں میں رکھتا۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’گرہن‘‘ کا بیانیہ اس قدر پر قوت ہے کہ اس کی خرابیاں جلد نظر نہیں آتیں۔ ایک حد تک یہی بات ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔’’گرہن‘‘ کا فنی مرتبہ ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ سے بلندتر ہے۔ لیکن اس وقت معاملہ زیر بحث یہ ہے کہ افسانے کی تعبیر ہمیں بار بار علمیاتی بیانات کی طرف لے جاتی ہے۔ ’’گرہن‘‘ کے مافیہ کے بارے میں ہمیں آل احمد سرور سے بہتر بیان نہیں مل سکتا۔ سرور صاحب کہتے ہیں، ’’حمل کے دوران ساس کی بندشیں اور میاں کی ہوس ناکی، ’گرہن‘ کی ہیروئن کو میکے اور اس کی آسائش کے لئے اس طرح بے قرار کرتے ہیں کہ وہ گھر سے نکل کھڑی ہوتی ہے۔ مگر اس کی بستی کا ہی ایک آدمی اس کو اکیلا پاکر اس کی عصمت پر حملہ کرتا ہے اور وہ عین اس وقت جب چاند گرہن ہو رہا ہے، سمندر کی طرف ڈوبنے کے لئے بھاگتی ہے۔‘‘ بیدی کا یہ افسانہ اس بات کی اچھی مثال ہے کہ فن پارے کے بارے میں ہم دو ہی طرح کی باتیں کہہ سکتے ہیں۔ یا تو ہم اس کی فنی خصوصیتوں کی بات کریں، یا پھر اس میں بیان کردہ یا اس میں مضمر تصورات حیات و کائنات کے بارے میں بات کریں۔ پہلی طرح کی باتیں کچھ اس طرح کے اقوال پر مشتمل ہوں گی کہ افسانہ نگار نے اپنے مرکزی کردار ہولی کے دکھ، اس کے شوہر اور ساس کے ظلم اور ہولی کے مائیکے کی خوشگواری کا بیان نہایت پرقوت انداز میں کیا ہے۔ کم سے کم الفاظ میں ہولی کے دکھ درد کی تصویر ہمارے سامنے کھینچ دی گئی ہے۔ افسانے کی زبان استعارے کی قوت سے مملو ہے اور ہولی کی صورت حال کو دیومالائی تمثیل کے ذریعہ اور بھی زیادہ موثر بنا دیا گیا ہے۔ افسانہ جب ختم ہوتا ہے تو ہمارا دل کچھ عجب طرح کے مانوس لیکن کچھ افسانوی سے درد اور خوف سے بھر جاتا ہے جس کی مثال اردو فکشن میں نہیں ملتی۔ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہیں گے کہ افسانے کے ڈھانچے میں ایک بنیادی سقم یہ ہے کہ ہولی کو بالکل انفعالی (Passive) اور بےاثر (Ineffectual)، بلکہ ایک حد تک بے عقل دکھایا گیا ہے لیکن اس کی کچھ وجہ نہیں بیان کی گئی، نہ اس کے لئے کوئی بنیاد قائم کی گئی۔ ہولی کے کئے کچھ بھی نہیں ہوتا، وہ ہرمرد کے ہاتھ میں موم کی ناک جیسی ہے۔ افسانہ نگار نے اس بات کی کوئی وثواق انگیز وجہ نہیں بتائی کہ ہولی کیوں اپنے گاؤں والے کی بات مان کر اسٹیمر چھوڑ دیتی ہے اور کیوں اس کے ساتھ جاکر سرائے میں رات کی رات آرام کرنے چلی جاتی ہے۔ اس کو یہ بھی خیال نہیں آتا کہ رات بھر سرائے میں، یا کہیں بھی ٹھہر جانے سے اس بات کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ اس کے سسرال والے اسے ڈھونڈ نکالیں اور پکڑ کر سسرال واپس لے جائیں۔افسانے کے پلاٹ میں یہ خرابی دو حال سے خالی نہیں ہو سکتی۔ یا تو بیدی کی فنی گرفت ناکام ہے، یا پھر بیدی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کی مظلومیت ثابت کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انھیں سادہ لوح، ارادہ اور قوت عمل و فیصلہ سے بالکل عاری ظاہر کیا جائے۔ دوسرے حال میں ناکامی افسانے کی نہیں بلکہ افسانہ نگار کی ثابت ہوتی ہے کہ صنفی آویزش (Gender Conflict) کے بارے میں اس کے خیالات غیرترقی یافتہ اور رجعت پسند ہیں۔یہاں پہنچ کر ہماری تعبیر آپ سے آپ علمیاتی تنقید کی دنیا میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہاں وہ سب باتیں تھوڑے بہت ردو وبدل کے بعد ’’گرہن‘‘ کے بارے میں کہی جا سکتی ہیں جو ہم نے گذشتہ صفحات میں ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کے بارے میں کہی تھیں، بشرطیکہ ہم ان تصورات اور نظریات کے حامل ہوں جن کی بنا پر ہم نے ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کے بارے میں مذکورہ بالا اظہار خیال کیا تھا۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ادبی/ وجودیاتی اور فلسفیانہ/علمیاتی بیانات میں سے کسی کو کسی پر بدیہی فوقیت حاصل نہیں، الا یہ کہ ہم یہ کہیں کہ ہم تو ادب کی صرف ادبی، فنی، وجودیاتی تعبیر ہی کو درست مانتے ہیں۔ باقی سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں یا پھر ہم یہ کہیں کہ فلسفیانہ/علمیاتی تعبیریں ہمیں فن پارے کے بارے میں کچھ بتاتی تو ہیں لیکن فن پارے کی تعیین قدر کے باب میں وہ بالکل خاموش یا ناکام رہتی ہیں، لہٰذا ہم ایسی تمام تعبیروں سے قطع نظر کریں گے۔ مشکل یہ ہے کہ ایسا کیا جائے تو بیانیہ کے تحریری فن پاروں کے بارے گفتگو نہایت غیردلچسپ ہو جائےگی۔ہم پہلے دیکھ ہی چکے ہیں کہ بیانیہ کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ ہمیں کسی ایک فریق کو اپنا سمجھنے اور خود کو اس کے جنبہ دار کی حیثیت میں قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بیانیہ کا قاری غیرجانب دار نہیں ہو سکتا۔ ہم یا تو ہولی کے جانبدار ہوں گے یا اس کے شوہر اور ساس کے، یا اس نظام کے جس میں عورت پر ظلم ہوتا ہے۔ مشکل صرف وہاں پیش آتی ہے جہاں ہم فلسفیانہ علمیاتی بیان کو ادبی بیان کا بدل سمجھ لیتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی قرأت ایسی ممکن ہے جو قاری کے تعصبات سے بالکل آزاد ہو۔ ہم اپنی قرأت کے نتائج بیان کرنے کے لئے کون سا طریق کار استعمال کریں یا ہمارا عمل قرأت کس نظریے کی روشنی میں عمل میں لایا جائے، یہ خود ہی تعصباتی کارروائی ہے، کیونکہ ایک طریق کار یا ایک نظریے کو قبول کرنا دوسرے طریقوں یا نظریوں کو رد کرنے کا حکم رکھتا ہے۔ بنیادی بات صرف یہ ہے کہ جو بھی طریق کار اپنایا جائے، ہمیں اس کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے حدود کا بھی پورا پورا علم ہو اور ادب کو فلسفہ کا بدل نہ سمجھ لیا جائے۔