قیامت کا کوئی ہنگام ابھرے

قیامت کا کوئی ہنگام ابھرے
اجالے ڈوب جائیں شام ابھرے


کسی تلوار کی قاتل زباں پر
لہو چہکے ہمارا نام ابھرے


گرے گلیوں کے قدموں پر اندھیرا
فضا میں روشنئ بام ابھرے


ہیں سطح بحر پر موجیں پریشاں
جو دن ڈوبے تو کوئی شام ابھرے


ہزاروں رنگ پرچم سرنگوں ہیں
وہ ہم ہی تھے کہ بس گم نام ابھرے


ہماری ابتدا مٹی میں اک راز
ہمارے واسطے انجام ابھرے