قیامت

چلو اک رات تو گزری
چلو سفاک ظلمت کے بدن کا ایک ٹکڑا تو کٹا
اور وقت کی بے انتہائی کے سمندر میں
کوئی تابوت گرنے کی صدا آئی


یہ مانا رات آنکھوں میں کٹی
ایک ایک پل بت سا بن کر جم گیا
اک سانس تو اک صدی کے بعد پھر سے سانس لینے کا خیال آیا
یہ سب سچ ہے کہ رات اک کرب بے پایاں تھی
لیکن کرب ہی تخلیق ہے
اے پو پھٹے کے دل ربا لمحو گواہی دو


یوں ہی کٹتی چلی جائیں گی راتیں
اور پھر وہ آفتاب ابھرے گا
جو اپنی شعاعوں سے ابد کو روشنی بخشے گا
پھر کوئی اندھیری دھرتی کو نہ چھو پائے گا
دانایان مذہب کے مطابق حشر آ جائے گا
لیکن حشر بھی اک کرب ہے
ہر کرب اک تخلیق ہے
اے پو پھٹے کے دل ربا لمحو گواہی دو