قتل آفتاب

شفق کے رنگ میں ہے قتل آفتاب کا رنگ
افق کے دل میں ہے خنجر لہو لہان ہے شام
سفید شیشۂ نور اور سیاہ بارش سنگ
زمیں سے تا بہ فلک ہے بلند رات کا نام


یقیں کا ذکر ہی کیا ہے کہ اب گماں بھی نہیں
مقام درد نہیں منزل فغاں بھی نہیں
وہ بے حسی ہے کہ جو قابل بیاں بھی نہیں
کوئی ترنگ ہی باقی رہی نہ کوئی امنگ
جبین شوق نہیں سنگ آستاں بھی نہیں
رقیب جیت گئے ختم ہو چکی ہے جنگ
دلوں میں شعلۂ غم بجھ گیا ہے کیا کیجے
کوئی حسین نہیں کس سے اب وفا کیجے
سوائے اس کے کہ قاتل ہی کو دعا دیجے


مگر یہ جنگ نہیں وہ جو ختم ہو جائے
اک انتہا ہے فقط حسن ابتدا کے لیے
بچھے ہیں خار کہ گزریں گے قافلے گل کے
خموشی مہر بہ لب ہے کسی صدا کے لیے
اداسیاں ہیں یہ سب نغمہ و نوا کے لیے


وہ پہنا شمع نے پھر خون آفتاب کا تاج
ستارے لے کے اٹھے نور آفتاب کے جام
پلک پلک پہ فروزاں ہیں آنسوؤں کے چراغ
لویں لچکتی ہیں یا بجلیاں چمکتی ہیں
تمام پیرہن شب میں بھر گئے ہیں شرار


ہزار لب سے زمیں کہہ رہی ہے قصۂ درد
ہزار گوش جنوں سن رہے ہیں افسانہ


چٹک رہی ہیں کہیں تیرگی کی دیواریں
لچک رہی ہیں کہیں شاخ گل کی تلواریں
سنک رہی ہے کہیں دشت سرکشی میں ہوا
چہک رہی ہے کہیں بلبل بہار نوا
مہک رہا ہے وفا کے چمن میں دل کا گلاب
چھلک رہی ہے لب و عارض و نظر کی شراب


جوان خوابوں کے جنگل سے آ رہی ہے نسیم
نفس میں نکہت پیغام انقلاب لیے
خبر ہے قافلۂ رنگ و نور نکلے گا
سحر کے دوش پہ اک تازہ آفتاب لیے