قطر فیفا ورلڈ کپ، چند بڑے راز اور چند اہم باتیں
چھوٹی قوم بڑی سیاستیں:
آج کل یہ لقب دیا جاتا ہے جزیرہ نما عرب کے چھوٹے سے ملک قطر کو۔ وہی قطر جو اکیس نومبر 2022 سے فیفا فٹبال ورلڈکپ کا بائیسواں ایڈیشن شروع کروا چکا ہے۔ شائقین کا جوش و خروش ہے کہ تھمنے میں نہیں آتا۔ لیکن قطر نے فیفا جیسے ایونٹ میں بہت سی جگہ اسلامی ثقافت کی چیزیں متعارف کروا کر پوری دنیا کے مسلمانوں کا دل جیت لیا ہے۔ افتتاحی تقریب میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کا خطاب، سٹیدیم میں شراب پر پابندی اور دیگر خرافات پر سر عام پابندی لگا کر قطر نے اچھی نظیر قائم کی ہے۔
قطر کی جانب سے ورلڈ کپ کی تیاری:
قطر نے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے خود کو ایک دو برس میں تیار نہیں کیا، بلکہ پورے بارہ برس کا قصہ ہے۔ یہ 2010 تھا جب فیفا کمیٹی نے 2022 کے ورلڈ کپ کی میزبانی کا قرعہ قطر کے نام نکالا۔ حالانکہ مد مقابل امریکہ، جاپان اور ساؤتھ کوریا جیسے ممالک تھے۔ بارہ سالوں میں قطری انتظامیہ نے قطر کو فیفا کے معیارات کے مطابق تیار کیا۔ ان تیاریوں میں بہت سا نیا انفراسٹرکچر تیار کرنا پڑا اور بہت سی نئی قانون سازی کرنی پڑی۔ میڈیا رپورٹس میں مختلف قطری منسٹرز کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ورلڈکپ کے لیے انفراسٹرکچر کھڑا کرنے میں لگ بھگ دو سو ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ یہ خرچہ کسی بھی دوسرے فیفا ورلڈ کپ یا اولمپکس کے انعقاد سے بہت بڑھ کر ہے۔ آپ اس رقم کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم جو آئی ایم ایف کے آگے منتیں کرتے پھرتے ہیں، ہمیں تین سالوں میں صرف چھے ارب ملنے ہیں اور قطر اس میلے کے لیے دو سو ارب ڈالر کے نزدیک کا خرچہ کر چکا ہے۔
اس خرچے سے قطر نے سٹیڈیم بنائے ہیں، ریل نیٹ ورک تعمیر کیا ہے، مصنوعی جزیرے تعمیر کیے ہیں، ہوائی اڈہ تعمیر کیا ہے اور پورا نیا شہر بھی۔ قطر کے تعمیر کردہ سٹیڈیمز میں سے آٹھ میں ورلڈکپ کے تمام میچیز ہونے ہیں۔ یہ سٹیڈیمز بالترتیب خلیفہ انٹرنیشنل، الجنوب سٹیڈیم، ایجوکیشن سٹی سٹیڈیم، احمد بن علی سٹیڈیم التھماما سٹیڈیم، البیت سٹیڈیم، سٹیڈیم 974 اور لوسیل سٹیڈیم ہیں۔ لوسیل سٹیڈیم سب سے بڑا ہے جس میں اسی ہزار افراد کی گنجائش موجود ہے۔ تمام سٹیڈیمز کو ورلڈ کلاس قسم کی ٹرانسپورٹ سے منسلک کیا گیا ہے۔ سٹیڈیمز ایک دوسرے سے انتہائی نزدیک ہیں، جس کی وجہ سے وہ شائقین جو ایک دن میں ایک سے زائد میچز دیکھنے کے متمنی ہوں، بآسانی ایک سٹیڈیم سے دوسرے تک جا سکتے ہیں۔
اسی طرح قطر نے فٹبال ورلڈ کپ کو منعقد کروانے کے لیے بہت سی قانون سازی بھی کی ہے۔ یہ قانون سازی ملازمین کے حقوق، جملہ دانشورانہ حقوق کو محفوظ بنانے، امیگریشن، آزادی تجارت، محصولات اور جوا یا سٹے بازی وغیرہ کو روکنے کے حوالے سے ہیں۔ قطر نے کھیل کے حوالے سے جنم لینے والے تنازعات پر خصوصی ٹرائیبیونل بھی تشکیل دیا ہے۔
قطر پر لگنے والے الزامات اور دیگر مسائل:
یہ تاثر عام ہے کہ فٹبال کے کھیل پر یورپ اور امریکہ کی اجارہ داری ہے۔ اب اس کھیل کے عالمی کپ کا ایک تو ایشیا میں ہونا اور دوسرا مشرق وسطیٰ کے مسلم ملک میں، اجارہ داروں کے لیے ہضم کرنا مشکل ہے۔ فٹ بال کے کل بائیس ایڈیشن میں یہ دوسرا ہے جو ایشیا میں ہونے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے 2002 میں جنوبی کوریا مین ہو چکا ہے۔
فٹبال کے اس میلے کے حوالے سےجو دو بڑے الزامات قطر پر لگے وہ درج ذیل ہیں:
1۔ قطر نے تیزی سے ورلڈکپ کی تیاری کے لیے کام کرنے والے ملازمین کے حقوق کا خیال نہیں رکھا۔
2۔ قطر کے حکام نے عالمی کپ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے فیفا کے اراکین کو رشوت دی۔
قطر نے پہلے الزام کے جواب میں اپنے ہاں بہت سی قانون سازی کی ہے۔ لیکن اس کے اطلاق کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کے تحفظات موجود ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ قطر میں دیگر عرب ممالک کی طرح ترقی پذیر ممالک سے گئے ملازمین سے کئی ایک طرح کے استحصال موجود ہیں۔ جیسا کہ ان کا پاسپورٹ لے لینا، وقت پر تنخواہوں کے مسائل، بھرتیوں کے زمن میں بھاری قیمتیں وصول کرنا وغیرہ۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ تیزی سے انفراسٹرکچر وغیرہ کو مکمل کرنے کے لیے ملازمین سے ضرورت سے زائد کام لیا جاتا ہوگا۔ لیکن ان سب چیزوں کو ورلڈکپ کے ضمن میں استعمال کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ درپردہ سیاسی مقاصد ضرور موجود ہیں۔ نہیں تو قطر کی طرح دیگر عرب ممالک پر بھی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے ہاں ملازمین کا استحصال بند کریں۔ وہاں صرف رپورٹیں شائع کر کے عالمی برادری فارغ نہ ہو جایا کرے۔
دوسرے الزام کے جواب میں فیفا خود چھان بین کروا چکا ہے۔ کچھ ٹھوس سامنے نہیں آیا۔ لیکن میڈیا میں تاثر آج تک موجود ہے کہ رشوت دی گئی ہے۔ اب حقیقت کیا ہے، یہ خدا ہی جانے۔
ان الزامات سے ہٹ کر ایک بڑی مشکل قطر میں عالمی کپ کی تھی وہ صحرا کی تپتی گرمی تھی۔ گرمیوں میں قطر میں پارہ پچاس ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں ٹھنڈے ممالک کی ٹیموں کو کھیلنے کے لیے خاصی مشکلات آ سکتی تھیں۔ اس کے لیے ایک تو عالمی کپ کے میلے کو نومبر میں رکھا گیا ہے اور دوسرا آیئر کنڈیشننگ کے حوالے سے بھی خصوصی انتظامات کیے ہیں۔
حاصل کلام:
بہرکیف مشرق وسطیٰ میں فٹبال جیسا میلا سجنا ایک خوش آئند بات ہے۔ شاید اسی طرح عرب کے خطے میں لگی آگ کا اختتام شروع ہو اور زندگی بخش سرگرمیوں کا آغاز ہو۔ یہی بات جنرل اسمبلی کے چھیہترویں اجلاس میں منظور ہونے والی قطر میں عالمی کپ کی اہمیت پر قراداد میں کی گئی ہے۔ اس کا خیر مقدم فیفا نے بھی کیا ہے۔ جنرل اسمبلی کی یہ قرارداد سیاسی مقاصد سے بالاتر ہو کر ایک مثبت سرگرمی کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت اہم ہے۔ ہم سب کو اس قسم کی زندگی بخش سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور انہیں سیاست اور کرپشن سے دور رکھنا چاہیے۔