قصر ویراں
ڈوبا شفق کی جھیل میں خورشید خاوری
انگڑائی لے کے غرب سے لیلئ شب اٹھی
مہکے ہوئے چمن کی ہوائیں اداس ہیں
کیا کھو چکی ہیں آج فضائیں اداس ہیں
کھڑکی میں آسمان کی حیراں ہے چاند بھی
شاید مری طرح سے پریشاں ہے چاند بھی
سوئی ہوئی بہار کے چہرے پہ یاس ہے
غمگین دل کی طرح گلستاں اداس ہے
آتی نہیں ہے دور سے کوئل کی اب صدا
گاتی نہیں ہے گیت مسرت کے اب ہوا
یہ گھر اور اس کے گرد جو شے ہے اداس ہے
جو مردنی ہے دل میں وہی آس پاس ہے
ہر سال آ کے دیکھتا ہوں تیرے گھر کو میں
اب تک عزیز ہوں ترے دیوار و در کو میں
سنتا ہوں اب بھی یاں ترے قدموں کی میں صدا
آ آ کے ڈھونڈھتی ہے تجھے یاں مری نگہ
جس گھر پر حکمراں ترے جلووں کی تھی بہار
وہ گھر بنا ہے میری محبت کا اب مزار