قرض

اک عدن جل رہا تھا نگہباں خدا
اس گھڑی ساتویں آسماں پر نہ تھا
اور ازل سے ابد تک احاطہ کیے
ایک افعی کی منحوس آواز تھی
اور خدا میرے شام و سحر میں نہ تھا
میرے گھر میں نہ تھا


اور خدا
جو دبے پاؤں کھڑکی سے پیچھے ہٹا
جو مرے ساتھ سونی سڑک پر رکا
یک بیک منفعل ہچکیوں میں بکھرنے لگا
اک جلال رواں میرے ہم راہ گلیوں میں چلنے لگا


اور خجالت کی یہ رات
اک سرد پتھر پہ تکیہ کیے
میری بانہوں میں بانہیں دئے
میرے معبود نے
قہرماں کرب میں کاٹ دی
اور عدن جل بجھا


ذوالجلال آنسوؤں کے طفیل آج بھی
ہر نفس اک سلگتا ہوا فرض ہے
اک نیا گھر مقدس گھروں کی قسم
میرے معبود پر آج بھی قرض ہے