قرار دیدہ و دل میں رہا نہیں ہے بہت
قرار دیدہ و دل میں رہا نہیں ہے بہت
نظر نواز مرے کوئی گل سریں ہے بہت
رکھا نہ ہو کسی خواہش نے سر بہ خوں اس کو
تمہارا ہونٹ کئی دن سے آتشیں ہے بہت
ملا نہیں ہے مجھے وہ مگر پتا ہے مجھے
وہ دوسروں کے لیے بھی بچا نہیں ہے بہت
کھلا نہ ایک بھی در سر کشیدگی پہ مری
ہوا ہوں خاک تو دامن کشا زمیں ہے بہت
رکھا ہوا تھا سر طاق دل اک آئینہ
بہت دنوں سے کوئی آئنہ نشیں ہے بہت
تمہارا حسن ہی شعلہ فزا نہیں ہے مجھے
مرا لہو بھی کئی دن سے آتشیں ہے بہت
میں لہر لہر اسے جسم و جاں پہ اوڑھتا ہوں
غلاف ایسا ترا لمس مخملیں ہے بہت