قناعت عمر بھر کی گھر کے بام و در پہ رکھی تھی

قناعت عمر بھر کی گھر کے بام و در پہ رکھی تھی
میں زیر آسماں تھا دھوپ میرے سر پہ رکھی تھی


تعجب کیا جو اب بھی ڈھونڈتے ہیں سنگ در کوئی
کہ ہم نے ابتدا تہذیب کی پتھر پہ رکھی تھی


وہی چہرے لہو کی گرم بازاری میں شامل تھے
جنہوں نے اپنی گردن بڑھ کے خود خنجر پہ رکھی تھی


میں عاشق ہوں بدل ڈالا مجھے عشق و قناعت نے
اجالا دل میں تھا دنیا مری ٹھوکر پہ رکھی تھی


نہ جانے میں کہاں بھٹکا کیا خوابوں کی بستی میں
کھلی جب آنکھ تو دیکھا تھکن بستر پہ رکھی تھی


مرے بچوں نے وہ دستار بھی جانے کہاں رکھ دی
بزرگوں کی نشانی تھی ابھی تک گھر پہ رکھی تھی


وہی تہذیب اب ہم کو ضیاؔ جینے نہیں دیتی
کبھی بنیاد جس کی ہم نے مال و زر پہ رکھی تھی