قلم کو خون میں غرقاب دیکھتے جاؤ
قلم کو خون میں غرقاب دیکھتے جاؤ
زمین شعر کو شاداب دیکھتے جاؤ
نگاہ ہوتے ہوئے سیل خوں پہ چپ رہنا
ہمارے شہر کے آداب دیکھتے جاؤ
پہنچ گئی ہے سر عرش ان کی خاموشی
کہ کشتگاں کو ظفر یاب دیکھتے جاؤ
سجائے ماتھے پہ اپنی تمام تعبیریں
ہماری آنکھ کے سب خواب دیکھتے جاؤ
سلگ رہا ہے کوئی اور جل رہا ہے کوئی
گھروں کی یہ بھی تب و تاب دیکھتے جاؤ
ہر ایک قبر پہ لکھا ہوا ہے نام یہاں
ہمارے منبر و محراب دیکھتے جاؤ
غرض کے سینکڑوں بازار کھل گئے لیکن
خلوص ہو گیا نایاب دیکھتے جاؤ