قیدیوں میں نہ کرے ذکر گلستاں کوئی
قیدیوں میں نہ کرے ذکر گلستاں کوئی
لے کے اڑ جائے نہ گلزار میں زنداں کوئی
داغ ہائے دل ویراں پہ تعجب نہ کرو
بس بھی جاتا ہے کسی وقت بیاباں کوئی
شاید اس بات پہ لب میرے سیے جاتے ہیں
آہ کے ساتھ نکل جائے نہ ارماں کوئی
شدت درد نے فطرت ہی بدل دی دل کی
نالہ ہو جاتا ہے بنتا ہے جو ارماں کوئی
سختی راہ طلب دیکھ کے جی چھوٹ گیا
ابرؔ وہ چھوڑ چلا جادۂ عرفاں کوئی