قیدیوں پر امریکی مظالم
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج آج کل برطانیہ کی جیل میں موجود ہیں۔ انہیں امریکہ اپنی تحویل میں لینے کے لیے سر توڑ کاوشیں کر رہا ہے۔ اپنی ان کاوشوں کے دوران امریکہ خود ہی اپنے نظام میں ڈھکے منظم (ریاستی) جرائم سے پردہ اٹھاتا جا رہا ہے۔
امریکہ نے جولین اسانج کی حوالگی کی صورت میں ان سے انسانی سلوک کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ یہ یقین دہانی آج کل برطانوی عدالت عالیہ کے زیر غور ہے۔ لیکن اس قسم کی یقین دہانیوں کی ضرورت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ امریکہ میں قیدیوں کے ساتھ عام طور پر کیا بھیانک سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسانج کو ADX فلورنس ADX Florence میں نظربند نہیں کرے گا۔ ADX Florence دراصل وفاقی حکومت کے زیر انتظام ایک خوف ناک قید خانہ ہے جس میں تشدد کے خلاف عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سینکڑوں قیدیوں کو برسوں تک مکمل تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ یہاں کے ماحول اور تنہائی کی اذیت جسمانی تشدد سے کئی گنا بڑھ کر ہوتی ہے جہاں انسان کا اپنا ذہن ہی اس کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار بن جاتا ہے۔ تاہم امریکہ نے اسانج کو ADX Florence میں نہ قید کرنے کی تو یقین دہانی کروائی ہے لیکن یہ یقین دہانی کہیں بھی نہیں کروائی کہ اسے کمیونیکیشن مینیجمنٹ یونٹ میں نہیں رکھا جائے گا، جو کہ ADX Florence سے کہیں بڑھ کر تنہائی والی جگہ ہے۔
اپنی یقین دہانی میں، امریکہ نے اسانج کو "کسی بھی ایسے طبی اور نفسیاتی علاج" تک رسائی کو یقینی بنانے کا وعدہ بھی کیا ہے جو جیل کے ڈاکٹر تجویز کریں۔ سابق برطانوی عدالت کے فیصلے میں اسانج کے خودکشی کے خطرے کو اس کی حوالگی میں واحد رکاوٹ قرار دیا گیا تھا۔
امریکہ کی قید خانے کے معالجین کی تجویز پر علاج کی سہولت فراہم کرنا ایک قابل اعتراض بات ہے، کیونکہ امریکی پریزن میڈیکل انڈسٹریل کمپلیکس میں دیکھ بھال کے نام پر طریقے بدل کر اکثر سزا کا تسلسل ہی رکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ نفسیاتی خدمات والے یونٹس میں الگ تھلگ کر کہ ذہنی اذیت دیے جانا۔ خود کشی سے دور رکھنے والے یونٹس میں چوبیس گھنٹے مکمل برہنگی ، نگرانی اور فون بوتھ جتنے چھوٹے سیل میں تشدد پر مبنی تھراپیز کیے جانا وغیرہ۔
امریکہ نے اپنی یقین دہانیوں میں یہ بھی کہا ہے کہ اسانج کو وہ سفاک قسم کے سپیشل ادمنسٹریٹٹو مئیرز Special Administrative Measures کے تحت مکمل تنہائی کی سزا بھی نہیں دے گا، تاانکہ اسانج مستقبل میں کوئی ایسی حرکت نہ کر دے جس کی وجہ سے وہ اس سزا کا حق دار پائے۔
امریکہ کی طرف سے یہ سب یقین دہانیاں تو کروائی جا رہی ہیں لیکن "دہشت گردی" کے الزامات کے تحت برطانیہ کی طرف سے امریکہ کے حوالے کیے گئے مسلمانوں کے سابقہ کیس اس بات کی کھلی دلیل ہیں کہ کس طرح یقین دہانیاں صرف بدسلوکی کی راہ ہموار کرتے ہوئے امریکہ کی ڈھال کے طور پر کام کرتیں ہیں۔ امریکہ اپنی دہانیوں سے صاف مکر جانے کی طویل تاریخ رکھتا ہے۔
ہارون اسوت ایک مسلم قیدی ہیں جن کو لاحق ذہنی مرض شیزو فرینیا کی تشخیص برطانوی جیل میں ہی ہو چکی تھی۔ ان کی اس ذہنی حالت کے باوجود انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ امریکہ نے انہیں مکمل ذہنی علاج کی خدمات فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ امریکہ کی یقین دہانی کی بنیاد پر یورپی عدالتوں نے ہارون سے مستقبل میں ہونے والی ممکنہ بد سلوکی کے خوف کو بے بنیاد قرار دیا اور انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ جاری کر دیا۔ حالانکہ، امریکی انسداد دہشت گردی پر تنقیدی خیالات رکھنے والے ماہرین کے ایک گروپ نے اس فیصلے کے مضر مضمرات سے خبردار کیاتھا۔ ۔
اب اسوت ہارون کو اوریگون میں شیریڈن فیڈرل کریکشنل انسٹی ٹیوشن میں قید کیا گیا ہے، جہاں موجودہ حالات میں مبینہ طور پر مکھیوں سے بھرے کھانے کی ٹرے دی جاتی ہے، سنگین طبی حالات میں بھی علاج سے انکار کیا جاتا ہے، صفائی کے بنیادی سامان جیسے کہ ٹوائلٹ پیپر سے بھی محروم رکھا جاتا ہے، اور 24 گھنٹے تک لاک ڈاؤن رکھا جاتا ہے۔ دن مارچ سے اب تک وہاں تین قیدی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں کم از کم ایک بظاہر طبی غفلت کا شکار بھی شامل ہے۔
امریکہ کی یقین دہانی کروانے اور پھر اس سے مکر جانے کا منہ بولتا ثبوت ایک اور کیس ہاتھ اور پاؤں کٹے مصطفیٰ کامل مصطفیٰ کا ہے۔ یوروپی کورٹ آف ہیومن رائٹس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ دوہرے معذور مصطفیٰ کامل مصطفی کو ان کی معذوری کی شدت کی وجہ سے انہیں ADX فلورنس سپر میکس میں رکھا جانا ناممکن ہے، ان کو امریکہ کے حوالے کر دیا۔ ان کی تمام تر معذوری کے باوجود آج وہ وہیں ہیں جہاں کے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے۔ امریکہ نے مصطفیٰ کو 2015 میں ADX میں منتقل کر دیا جس سے "ناممکن" ممکن ہوا اور وہ تب سے خصوصی انتظامی اقدامات کے تحت وہاں موجود ہیں۔
اسی طرح بابر احمد اور طلحہ احسن پر امریکی حکام کی جانب سے ایک ویب سائٹ چلانے پر مقدمہ چلایا گیا۔ ان دونوں حضرات اور ان کی ویب سائیٹ کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں تھا سوائے مبینہ طور پر کنیکٹی کٹ میں ان کے ایک سرورserver کے۔ امریکہ نے ان کی حوالگی اس یقین دہانی پر ممکن بنائی کہ ان کو دشمن دہشت گرد سمجھتے ہوئے ان سے دہشت گردوں والا برتاؤ نہیں کرے گا لیکن پھر ان کا ٹرائیل گوانتنامو میں ملٹری کمیشن کے سامنے کیا۔
گوانتنامو کے علاوہ، احمد اور احسن نے امریکی شہری قانونی نظام کے سنہری معیار کا تجربہ بھی کیا۔ دونوں کو تشدد کر کے اور عمر بھر قید با مشقت کی دھمکیاں دے کر جرم قبول کروایا گیا۔ دو سال کی اعصاب شکن مکمل تنہائی اور تشدد پر مبنی سزا کاٹنے کے بعد ٹرائیل کے دوران جج نے فیصلہ دیا کہ ان پر لگے الزامات کا کوئی ثبوت نہیں اور ان کا اس جرم سے کوئی تعلق نہیں جس کے تحت ان کو سزا دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ تمام کیس اس بات کی غمازی ہیں کہ امریکہ اپنی یقین دہانیاں کبھی پوری نہیں کرتا اور وعدہ کر کے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اب اسی قسم کی یقین دہانیاں جولین اسانج کے کیس میں کروائی جا رہی ہیں۔ شاید اسانج کو امریکی افواج کے عراق سمیت دیگر ممالک میں مظالم پر سے پردہ اٹھانے کی پاداش میں اذیتوں کا سامنا کرنا پڑے۔