قفس نصیبوں کو تڑپا گئی ہوائے بہار

قفس نصیبوں کو تڑپا گئی ہوائے بہار
چھری سی دل پہ چلی جب چلی ہوائے بہار


کوئی تو جرعہ کش جام ارغوانی ہو
کسی کو ہجر کے غم میں لہو رلائے بہار


ہوا میں آج کل اک دھیمی دھیمی وحشت ہے
اسی زمانے سے شاید ہے ابتدائے بہار


نسیم صحن چمن میں پچھاڑیں کھاتی ہے
تو دل کو اور بھی تڑپاتی ہے ادائے بہار


قفس پہ رکھیو نہ صیاد بار پھولوں کا
کہیں اسیروں کو ظالم نہ یاد آئے بہار


کھڑی ہوئی ہے عصا ٹیکے نرگس بیمار
اس انتظار میں ہے دیکھیے کب آئے بہار


سفید بالوں پہ کیا رنگ دے رہا ہے خضاب
اب ابتدائے خزاں ہے اور انتہائے بہار