قدم اٹھے ہیں تو دھول آسمان تک جائے
قدم اٹھے ہیں تو دھول آسمان تک جائے
چلے چلو کہ جہاں تک بھی یہ سڑک جائے
نظر اٹھاؤ کہ اب تیرگی کے چہرے پر
عجب نہیں کہ کوئی روشنی لپک جائے
گداز جسم سے پھولوں پہ انگلیاں رکھ دوں
یہ شاخ اور ذرا سا اگر لچک جائے
کبھی کبھار ترے جسم کا اکیلا پن
مرے خیال کی عریانیت کو ڈھک جائے
ترے خیال کی تمثیل یوں سمجھ جاناں
دل و دماغ میں بجلی سی اک چمک جائے
ترے وصال کی امید یوں بھی ٹوٹی ہے
کہ آنکھ بھر بھی نہیں پائے اور چھلک جائے
کبھی کبھار بھروسے کا قتل یوں بھی ہو
کہ جیسے پاؤں تلے سے زمیں سرک جائے