قدم قدم پہ وفا کا دیار راہ میں ہے
قدم قدم پہ وفا کا دیار راہ میں ہے
خوشا کہ نقش کف پائے یار راہ میں ہے
ہر ایک موج میں ساز فریب ہے جس کی
وہ اک سراب بہ ہر اعتبار راہ میں ہے
یہ اڑ رہی ہے جو خوں رنگ خاک ہر جانب
کسی شہید جنوں کا مزار راہ میں ہے
نہ کوئی بات نہ مقصد نہ آرزو نہ سوال
بس ایک غلغلۂ گیر و دار راہ میں ہے
سکون شب ہمہ نغمہ فضائے شب ہمہ نور
مگر ابھی کوئی شب زندہ دار راہ میں ہے
پہنچ چکے ہیں ادھر ہم سفر سر منزل
ادھر ابھی خلش انتظار راہ میں ہے
قدم قدم پہ گریباں قدم قدم پہ لہو
یہی تو ایک ثبوت بہار راہ میں ہے
تری طلب کے تقاضے ترے حصول کے خواب
تری تلاش بہر اعتبار راہ میں ہے