قائد اعظم

آدم کی تاریخ کے سینے میں ڈوبے ہیں
کتنے سورج کتنے چاند
کیسے کیسے رنگ تھے مٹی سے پھوٹے
موج ہوا کے بنتے اور بگڑتے رستوں میں ٹھہرے
اور خاک ہوئے
نیلے اور اتھاہ سمندر کے ہونٹوں کی پیاس بنے
آنے والے دن کی آنکھوں میں لہراتی آس بنے
کیسے کیسے رنگ تھے جو مٹی سے چمکے
اور چمک کر پڑ گئے ماند


کچھ سورج ایسے پھر بھی
اپنی اپنی شام میں جو اس دشت افق کا رزق ہوئے ہیں
لیکن اب تک روشن ہیں گہنائے نہیں
پھول ہیں جن کو چھونے والی سبز ہوائیں خاک ہوئیں
لیکن اب تک تازہ ہیں کمہلائے نہیں
ایسا ہی اک سورج تھا وہ آدم زادہ
ٹوٹی اینٹوں کے ملبے سے جادہ جادہ
ٹکڑا ٹکڑا یکجا کر کے
ایک عمارت کی بنیادیں ڈال رہا تھا
سات سمندر جیسے دل میں
ان کے غم کو پال رہا تھا
جن کے کالے تنگ گھروں میں کوئی سورج چاند نہیں تھا
پھولوں کی مہکار نہیں تھی بادل کا امکان نہیں تھا
صبح کا نام نشان نہیں تھا
نیند بھری آنکھوں کے لان میں
وہ خود سورج بن کر ابھرا
ڈھلتی شب میں پورے چاند کی صورت نکلا
صبح کے پہلے دروازے پر دستک بن کر گونج اٹھا


آج میں جس منزل پر کھڑا ہوں
اس پر پیچھے مڑ کر دیکھوں
تو اک روشن موڑ پہ اب بھی
وہ ہاتھوں میں
آنے والے دن کی جلتی شمع تھامے
میری جانب دیکھ رہا ہے
جانے کیا وہ سوچ رہا ہے