قابل رشک ذات پھولوں کی
قابل رشک ذات پھولوں کی
خوب ہے کائنات پھولوں کی
خوشبوؤں کا سفر طویل مگر
مختصر ہے حیات پھولوں کی
کر چکے ہیں وضو وہ شبنم سے
ہو رہی ہے صلوٰۃ پھولوں کی
سو گئے ہیں لپٹ کے کانٹوں سے
کیا قیامت ہے رات پھولوں کی
ہے اسیر قفس کے ہونٹوں پر
ذکر کلیوں کا بات پھولوں کی
ان کے ہنسنے سے کھل گئے غنچے
ان کے دم سے حیات پھولوں کی
چند لمحوں میں کھل کے مرجھائیں
زندگی بے ثبات پھولوں کی
ساری محفل مہک گئی انجمؔ
شعر ہیں یا برات پھولوں کی
ہے غزل میں چمک بھی انجمؔ کی
اور مہک ساتھ ساتھ پھولوں کی