کورونا ویکسین اور ہمارا ڈی این اے
پچھلے ڈیڑھ برس سے پوری انسانیت کورونا کی وبا کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہے۔ اس وبا کے پھوٹنے کی وجہ کو لے کر طرح طرح کی باتیں عوام میں مشہور ہیں۔ مثلاًیہ انسانی زندگی کو مفلوج کرنے کیلیے یہودیوں کی سازش ہے، امریکہ نے چین کے خلاف یہ ایک بائیولوجیکل ہتھیار تیار کیا جو پھر قابو سے باہر ہو گیا۔ یا یہ کہ دنیا کا معاشی نظام بدلنے کی یہ ایک کوشش ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اب یہ سب منہ شگافیاں تو کورونا کے بارے میں تھیں لیکن جب اس کے علاج کا واحد حل ، ویکسین مارکٹ میں آئی تو اس کے خلاف بھی طرح طرح کی سازشی تھیوریز پھوٹنے لگیں۔ ان تھیوریز میں سب سے قابل ذکر یہ ہے کہ یہ انسانوں کے جینز میں تبدیلی کر دے گی۔ اس آرٹیکل میں ہم تکنیکی لحاظ سے جائزہ لے کر دیکھیں گے کہ کیا ایسی کوئی صورت ہے کہ یہ ویکسینز ہمارے جینز یا ڈی این اے میں تبدیلی کر سکیں؟
اس وقت مارکٹ میں چار قسم کی کرونا کے خلاف ویکسینز دستیاب ہیں۔
- ایم- ار- این – اے ویکسین
- سپائک پروٹین ویکسین
- وائرس ویکٹر ویکسین
- غیر متحرک وائرس ویکسین
اس میں ایم ار این اے اور وائرل ویکٹری دو ایسی ویکسینیشن ہیں جن کو جنیٹک ویکسینز بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ان ویکسینز میں کرونا وائرس کا بے ضرر جینیٹک مٹیریل انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ سوالات انہی ویکسینز کے بارے میں اٹھتے ہیں۔ ان ویکسینز میں فائزر، موڈرنا، ایسٹروزینکا اور جونسن جونسن ویکسینز شامل ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات یقین کر لینے کی ہے کہ ان ویکسینز میں وائرس کا جینٹک میٹیریل تو ہوتا ہے لیکن یہ ہمارا جینز تبدیل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اسکو صرف ہمارے جسم میں اس لیے داخل کیا جاتا ہے کہ ہمارا جسم اس جینیٹک مٹیریل کی شناخت کر لے اور آئندہ اگر کبھی اصل وائرس ہمارے جسم میں داخل ہو تو ہمارا مدافعتی نظام فوراًسمجھ جائے کہ یہ وائرس خطرناک ہے اور اسے ختم کرنا ہوگا۔ آئیے ہم ایم ار این اے ویکسین کو تفصیل سے دیکھتے ہیں اور تیکنیکی لحاظ سے جائزہ لیتے ہیں کہ کیسے اس میں وائرس کا جنیٹک مٹیریل بے ضرر ہو چکا ہے۔
ایم – آر- این – اے ویکسین کا بے ضرر ہونا:
ایم- آر- این- اے ویکسینز کے ذریعے کرونا وائرس کا آر این اے انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہ آر این اے ہمارے سیل کے سائٹو پلازم میں جا کر پروٹینز تیار کرنا شروع کرتا ہے۔ لیکن ہمارا مدافعتی نظام فوری اس بات کا تعین کر لیتا ہے کہ اس آر این اے کے ذریعے تیار کردہ پروٹینز وہ نہیں جو کہ انسانی جسم کے ڈی این اے کے آر این اے کے پروٹینز تیار کرتی ہیں۔ لہٰذا فوری اس پروٹینز کو ختم کرتا ہے اور پھر اس آر این اے کو بھی۔ ہمارے جسم کے ٹی- لمفیسائٹ اور بی- لمفیسائٹ سیلز اس بات کو یاد رکھتے ہیں کہ آئندہ اس آر این اے کا حامل کوئی بھی وائرس جسم میں داخل ہوا تو اسے ختم کرنا ہے۔ بعض لوگ اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ وائرس کا آر این اے جو جسم میں داخل ہوتا ہے اگر سائٹو پلازم میں جانے کی بجاۓ نیوکلیس میں جا کر ہمارے جینز میں تبدیلی کر گیا تو؟ لیکن ایکسپرٹس کا خیال ہے کہ گوکہ یہ ممکن ہے کہ آر این اے جو جسم میں داخل کیا جاتا ہے وہ نیوکلیس میں داخل ہو جائے لیکن وہ ہمارے جینز کو متاثر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ہمارے جسم میں ڈی این اے دو دھاگوں والا ہوتا ہے جبکہ آر این اے ایک دھاگے والا۔ کبھی بھی ایک دھاگے والا آر این اے ڈی این اے سے نہیں مل سکتا، جب تک اس میں ریورس ٹرانسکرپٹیس اینزائم موجود نہ ہو۔ ہم جو ویکسین کے ذریعے آر این اے انسانی جسم میں داخل کرتے ہیں، وہ اس بات کو یقینی بنا کر کے کرتے ہیں کہ آر این اے کے ساتھ رورس ٹرانسکریپٹیس والا اینزائم موجود نہ ہو۔ لہٰذا اس کا کوئ امکان نہیں کہ ایم آر این اے ویکسینز ہمارے جنیٹک مٹیریل میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔
اسی طرح چاہے وائرل ویکٹر ویکسینز ہوں ، سپائک پروٹین ویکسین یا غیر متحرک وائرس والی ویکسینز، تمام میں وائرس پورا یا یا پھر وائرس کے کچھ اجزا جسم میں داخل تو کیے جاتے ہیں لیکن اس بات کو یقینی بنا کر کہ ان میں سے وہ تمام اجزا نکال لیے جائیں جو کہ جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان کو جسم میں داخل کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمارا مدافعتی نظام ان وائرسز کی شناخت کر لے اور اسے اپنی یاد داشت میں محفوظ کر لے۔ آئندہ اگر کبھی اس قسم کا وائرس جسم میں ائیے تو فورا حملہ کر کے اس تباہ کر دے۔