پیاس کی آگ
میں کہ ہوں پیاس کے دریا کی تڑپتی ہوئی موج
پی چکا ہوں میں سمندر کا سمندر پھر بھی
ایک اک قطرۂ شبنم کو ترس جاتا ہوں
قطرۂ شبنم اشک
قطرۂ شبنم دل خون جگر
قطرۂ نیم نظر
یا ملاقات کے لمحوں کے سنہری قطرے
جو نگاہوں کی حرارت سے ٹپک پڑتے ہیں
اور پھر لمس کے نور
اور پھر بات کی خوشبو میں بدل جاتے ہیں
مجھ کو یہ قطرۂ شاداب بھی چکھ لینے دو
دل میں یہ گوہر نایاب بھی رکھ لینے دو
خشک ہیں ہونٹ مرے خشک زباں ہے میری
خشک ہے درد، کا نغمے کا گلو
میں اگر پی نہ سکا وقت کا یہ آب حیات
پیاس کی آگ میں ڈرتا ہوں کہ جل جاؤں گا