پیارے انشا جی
ابن انشا کے انتقال پر سبط حسن صاحب نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا تھا مگر افسوس وہ اس کو مکمل نہیں کر سکے۔ یہاں یہی نامکمل مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔ (مرتب)
لندن سے واپسی کے بعد کئی بار ارادہ کیا کہ تمہیں خط لکھوں لیکن کاہلی، کچھ گرد و پیش سے بیزاری اور کچھ مصروفیت کہ نہ لکھ سکا اور آج تمہیں یہ بتانے کے لئے قلم اٹھایا ہے کہ آئندہ تم سے رہ و رسم آشنائی ترک ہمیشہ کے لئے۔ نہ خط نہ پیام نہ سلام۔ تم روٹھ گئے تو ہم بھی روٹھ گئے۔ البتہ یہ شکوہ ضرور ہے کہ تم نے ہمارا مرثیہ نہیں لکھا۔ تم سے کتنی بار کہا کہ یار اتنے مرثیے لکھتے ہو چند سطریں ہمارے لئے بھی۔ مگر تم ہر بار ٹال گئے۔ کبھی یہ کہہ کر تم میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں جو تمہارا مرثیہ لکھوں، کبھی یہ عذر کے پہلے مر کے تو دکھاؤ پھر سوچیں گے۔ بتاؤ اب کیا ہوگا۔ خیر چھوڑو اس قصے کو۔
آج پرانی باتیں رہ رہ کر یاد آتی ہیں۔ یاد ہے ہم تم پہلے پہل کب ملے تھے۔ مجھےتو یاد ہے۔ میں بمبئی سے نیا نیا آیا تھا۔ لاہور میں کسی کو جانتا نہ تھا۔ بمبئی سے چلتے وقت مجھے بس یہ بتایا گیا تھا کہ ابن انشا نامی ایک شخص ریڈیو اسٹیشن پر ملازم ہے۔ اس سے ملنا۔ وہ تمہیں پارٹی والوں سے ملوا دے گا۔ البتہ پارٹی کے دفتر ہرگز نہ جانا۔ میں نے ہوٹل میں سامان رکھا۔ ہوٹل ریڈیو اسٹیشن سے ایک فرلانگ پر تھا لیکن شہر کے جغرافیہ سے اجنبی۔ تانگے والے سے کہا مجھے ریڈیو اسٹیشن لے چلو۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور سمجھ گیا کہ کوئی اجنبی ہے۔ کہنے لگا ایک روپیہ ہوگا۔ میں نے کہا منظور۔ وہ تھوڑی دیر مجھے ادھرادھر گھماتا رہا۔ ریڈیو اسٹیشن لایا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ کامریڈ نے ہم کو بے وقوف بنایا۔
تم سے ریڈیو اسٹیشن کے آنگن میں ملاقات ہوئی اور پھر تم مجھ کو ہوٹل تک چھوڑنے آئے۔ میری سیر و سیاحت کی تفصیلات پوچھتے رہے اور پھر تیس برس تک یہ دوستی یونہی وضع داری سے نبھتی رہی۔ کبھی ٹیلی فون پر گفتگو ہو گئی۔ کبھی رقعے پرزے کے ذریعے ایک دوسرے کا حال پوچھ لیا۔ کبھی دوسرے تیسرے ماہ مل لئے۔ پرآشوب اور پر خطر حالات میں بھی تم نے اپنی وضع داری ترک نہیں کی۔ میرے بعض دوستوں نے متنبہ کیا کہ ابن انشا سرکاری درباری آدمی ہے۔ اس سے بچ کر رہا کرو۔ وہی تمہاری بات کہ میں چپ رہا، میں ہنس دیا منظور تھا پردہ ترا۔ اب میں کس سے کہتا کہ یہ سرکاری آدمی ہے جس کی وفاداری کی سند میرے دل پرنقش ہے۔ جو بڑے آڑے وقتوں میں انقلابیوں کے کام آیا ہے۔
دن گزرتے رہے۔ تم کراچی چلے آئے۔ پھر بھی ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ پھر’’لیل و نہار‘‘ نکلا۔ اور ہماری دوستیاں اور مضبوط ہو گئیں۔ پھر ایوبی دور آیا۔ ’’لیل ونہار‘‘ بند ہوا اور ہم بیروزگاری کے مزے لوٹنے لگے۔ ایک شام میں شاہ نور اسٹوڈیو حمید اختر کے ساتھ گیا ہوا تھا۔ ان کی فلم بن رہی تھی۔ اتنے میں تم بھی آگئے۔ گلے ملے اور کہنے لگے دو دن سے گھوڑے شاہ سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے سید کے گھرلے چلو اچھا ہوا تم مل گئے۔ یہ کہہ جیب میں ہاتھ ڈالا اور دو ہزار کے نوٹ نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیے۔ بولے رکھ لو۔ خیرت نہیں ہے۔ اگر بناسپتی سید ہوتے تو کہتا۔ یونیسکو کے پیسے ہیں۔ اس میں روس کا چندہ بھی، امریکہ کا بھی اور چیانگ کائی شیک کا بھی۔ میں نے کہا مگراس کی شان نزول کیا ہے۔ بولے فلاں موضوع پر انگریزی میں ایک پمفلٹ جلدی سے لکھ دو۔ حاتم خاں معاوضے میں اور بھی دیں گے۔ دوسرے دن گھر آئے۔ بولے کچھ بن چھپے مضمون ہیں تو دے دو۔ میں نے کہا کیا کروگے بولے اپنے نام سے چھپواؤں گا۔ مضمون لے کر کراچی چلے آئے۔ پھر ایک دن ایک رسالہ کے دفتر سے چیک آیا تو اصل حقیقت معلوم ہوئی۔
یاد ہے جب ہم تم سن تھامسن کی سرائے میں تین چار ہفتے ساتھ رہے تھے۔ یہ واقعہ ۶۷ء کا ہے۔ تم یونیسکو کے کام سے گئے تھے اور میں اپنے کام سے۔ دن رات قہقہوں لطیفوں میں گزرتی تھی۔ کچھ سرائے کی فربہ اندام و یوہیکل اور سیاہ فام نازنینوں کے حوالے سے، کچھ اپنی مفلسی کی پردہ داری کے باعث۔ ہم دونوں پہلے ریستوران کے دروازے پر کھانے کے داموں کی فہرست غور سے پڑھتے پھر آگے بڑھ جاتے۔ دن کا کھانا عموماً ڈبل روٹی کے ٹکڑوں اور سستے پھل فروٹوں پر مشتمل ہوتا۔ اور پھلوں کی تعریف میں کیا کیا قصیدہ خوانیاں ہوتیں۔ البتہ جس دن بی بی سی کی رقم ملتی تو عیش ہوتے۔
بہت کم لوگ کو معلوم ہے کہ لندن میں ڈاکٹر جانسن کہاں رہتا تھا، ڈکنس کی سکونت کہاں تھی، مارکس کن کن کھولیوں میں رہا تھا۔ انشاجی برطانوی ادیبوں کی قیام گاہوں کی ہنستی بولتی ڈائرکٹری تھے۔ صبح سے شام تک ہمارا یہی کام تھا۔ فرصت ملی اور چل پڑے۔ البتہ انشا جی سواریوں پر پیسہ خرچ کرنے کے قائل نہ تھے۔ یار لندن کی سیر چاہتے ہو تو پیدل چلو۔ یہ کیا کہ سرپٹ بھاگے جا رہے ہیں۔ اس سے وزن بھی گھٹتا ہے۔ غرض سب جگہیں دکھائیں، اس طرح کہ کیا گائیڈ دکھائے گا۔ ایک دن بولے آؤ تم کو ایک پب دکھاتے ہیں۔ میں نے کہا انشاجی ہوش میں ہو تو۔ تم اور مے خانے کا رخ؟ کسی نے جاتے نکلتے دیکھ لیا تو تمہاری پاک دامانی پانی پانی ہوجائے گی۔ سنی ان سنی کرکے بولے یہ فرنگی سوداگر ہمیں کس کس طرح سے لوٹتے ہیں۔ اب اس پب میں دیکھو۔ اس کے مالک نے بالائی منزل پر شرلاک ہومز کا ایک فرضی کمرہ سجایا ہے اور ایک شلنگ ٹکٹ لگا رکھا ہے۔ حالانکہ شرلاک ہومز، کوئن ڈال کا فرضی کردار ہے۔ وہاں جاکر دیکھا تو واقعی۔۔۔ (نامکمل)