پیار کی تیرے نشانی ہائے ہائے

پیار کی تیرے نشانی ہائے ہائے
میری افسردہ جوانی ہائے ہائے


جل رہا ہوں کب سے اپنی آگ میں
سوز آلام نہانی ہائے ہائے


کہہ رہے ہیں یہ مرے موئے سفید
کیا ہوئی تیری جوانی ہائے ہائے


ساقیا خالص پلا خالص پلا
آگ میں شامل ہو پانی ہائے ہائے


تھا کوئی پہلو میں گردش میں تھا جام
کیا تھا دور شادمانی ہائے ہائے


دل خوشی کا تھا جو گہوارہ کبھی
غم کی ہے اب راجدھانی ہائے ہائے


پوچھنا اس کا وہ مجھ سے حال دل
میرے اشکوں کی روانی ہائے ہائے


اب وہ صبحوں میں کہاں ہے دل کشی
اب کہاں شامیں سہانی ہائے ہائے


ان کے لب پر بھی تبسم آ گیا
سوزؔ کی شیریں بیانی ہائے ہائے