پوچھی نہ چشم تر کی نہ آہ رسا کی بات
پوچھی نہ چشم تر کی نہ آہ رسا کی بات
کرتے رہے وہ مجھ سے بس آب و ہوا کی بات
کیا بات میں سے بات نکلتی چلی گئی
تھا مدعا یہی کہ نہ ہو مدعا کی بات
رسم و رہ جہاں کی سفارش رہی مگر
پھر بھی تو آنے پائی نہ اہل وفا کی بات
کیا رسم التفات زمانے سے اٹھ گئی
سب کی زباں پر ہے ستم ناروا کی بات
طوفاں کا خطرہ سن کے نہ کر خوف اس قدر
آخر خدا کی بات نہیں ناخدا کی بات
گویا اسدؔ ہے دل کی زباں دل کا آئنہ
کس درجہ صاف ہوتی ہے اہل صفا کی بات