پرسش ہے چشم اشک فشاں پر نہ آئے حرف

پرسش ہے چشم اشک فشاں پر نہ آئے حرف
ڈوبیں بھی ہم تو سیل رواں پر نہ آئے حرف


دونوں ہی اپنی اپنی جگہ لا جواب ہیں
اپنے یقیں پہ ان کے گماں پر نہ آئے حرف


اے رشک اتنا وہم و گماں بھی بجا نہیں
احساس قربت رگ جاں پر نہ آئے حرف


دل نا مراد شعلۂ عارض سے جل گیا
ڈرتے تھے ہم کہ سوز نہاں پر نہ آئے حرف


ہشیار بزم غیر میں نام ان کا آ نہ جائے
اے نغمہ سنج جوش بیاں پر نہ آئے حرف


تیر نگاہ دل میں ترازو ہوا تو ہو
اب تیرے ابرووں کی کماں پر نہ آئے حرف


ہم ان کے رو بہ رو رہے اس مصلحت سے چپ
محفل میں اپنے عجز بیاں پر نہ آئے حرف


اڑ جائے تیغ سے تو رہے سرفراز سر
کٹ جائے بات پر تو زباں پر نہ آئے حرف


اس کشمکش میں تیری گلی سے پرے رہے
آئے کہاں پہ حرف کہاں پر نہ آئے حرف


طرزیؔ طواف خانۂ خالی سے خوش نہیں
بس جاؤ تم تو دل کے مکاں پر نہ آئے حرف