غزل: پرسش غم کا شکریہ

پُرسشِ غم کا شکریہ ، کیا تجھے آگہی نہیں

تیرے بغیر زندگی، درد ہے زندگی نہیں

 

دور تھا  اک ،گزر گیا ، نشّہ تھا اک ، اُتَر گیا

اب وہ مقام ہے جہاں شکوہٴ بے رُخی نہیں

 

تیرے سوا کروں پسند، کیا تری کائنات میں

دونوں جہاں کی نعمتیں ، قیمتِ بندگی نہیں

 

لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے ، وقت نہ وہ خدا دکھائے

جب مجھے ہو یقیں کہ تُو، حاصلِ زندگی نہیں

 

دل کی شگفتگی کے ساتھ، راحتِ مےکدہ گئی

فرصتِ مےکشی تو ہے ، حسرتِ مے کشی نہیں

 

زخم پے زخم کھاکے جی ، اپنے لہو کے گھونٹ پی

آہ نہ کر ، لبوں کو سی ، عشق ہے دل لگی نہیں

 

دیکھ کے خشک و زرد پھول ، دل ہے کچھ اس طرح ملول

جیسے تری خزاں کے بعد ، دورِ بہار ہی نہیں

 

متعلقہ عنوانات