پورےغالب
ہماری تنقید اب تک ادب کے کسی نہ کسی پابند تصور سے آزاد نہیں ہو سکی ہے، گو حال میں اس تصور سے بلندی اور ادب کی اپنی خصوصیت کو واضح کرنے کی کوششیں ملنے لگی ہیں۔ ادب میں اخلاق، ادب میں مذہبی تصورات، ادب میں تصوف، ادب میں سماجی قدریں، ادب میں انسان دوستی کے ہر نظریے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ادب کا مقصد ان میں سے کسی نقطۂ نظر کی ترجمانی یا اشاعت ہے مگر ادب تلقین نہیں تخلیق ہے۔ یہ Saying نہیں ہے Making ہے۔ ادب کی قدر و قیمت اس بات سے متعین نہیں ہوتی کہ وہ صحیفۂ اخلاق یا سماجی دستاویز ہے۔ ادب خود اخلاق ہے اور وہ اپنے طور پر سماجی بصیرت بھی دیتا ہے۔
ادب کا کوئی تعلق نہ پروپیگنڈے سے ہے نہ لوگوں کی ہدایت کرنے سے، نہ راہِ نجات سے، نہ فوری عمل کے لیے اکسانے سے، اس کا مقصد نہ علم میں امتیاز کرنا ہے، نہ معلومات دینا ہے، نہ واقعات بیان کرنا ہے. اس کا مقصد تخئیلی تجربے کی ترسیل ہے لیکن ترسیل کے لیے ذمہ داری صرف فن کار کی نہیں، اس کے حلقے کی بھی ہے۔ اگر آپ کا ریڈیوسیٹ ناقص ہے یا صرف ایک ہی لہر کو گرفتار کر سکتا ہے تو اس میں لہریں پھینکنے والے آلے کا کیا قصور۔ تخئیلی تجربہ جمالیاتی قدر رکھتا ہے۔ یہ خوش گوار اور دل کش ہوتا ہے اور بہ ظاہر ناخوشگوار اور بدصورت چیزوں سے بھی خوش گواری اخذ کر سکتا ہے، جس طرح دیوتا زہر سے امرت نکالتے تھے۔ یہ سنسنی خیزی سے دور رہتا ہے مگر جذبے اور حواس کو اپیل کرتا ہے۔ یہ جذبے کو معروضی بناتا ہے۔ اس میں مواد فارم میں جذب ہو جاتا ہے جو ’’دنیا‘‘ تھی ’’زبان‘‘ بن جاتی ہے اور زبان میں جذبات، خیالات اور نقطۂ نظر گھل مل کر ایک مجموعی بصیرت عطا کرتے ہیں۔
ادب کا تعلق اس سچائی سے نہیں ہے جو سائنس کی ہے۔ اس کا تعلق اس صداقت سے ہے جو مانی جا سکتی ہے۔ اس کا منطق سے نہیں جذبے اور اس کے جادو سے تعلق ہے، اسی لیے ارسطو نے ناممکن باتوں کے بیان کو جائز قرار دیا تھا مگر ناقابل قیاس باتوں کو نہیں۔ فن کی سچائی، اس کی اندرونی ضرورت اور اس کی صحت میں ہے۔ اس کی بڑائی ہمارے جذبات کو بیدار کرنے میں ہے۔ اس کی معلومات کی صحت یا اس کے بیان کی علمی قیمت میں نہیں۔
فن کی سچائی تو واضح ہو گئی مگر فن کی بڑائی کس چیز میں ہے۔ ایلیٹ نے کہا تھا کہ فن کو پرکھا تو فنی معیاروں سے جائے گا مگر اس کی بڑائی دوسرے معیاروں سے متعین ہوگی۔ بہ ظاہر اس سے خیال ہوتا ہے کہ ایلیٹؔ کی مراد زندگی میں بڑائی کے معیاروں سے ہے اور غالباً یہ معیار اخلاقی یا سماجی ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ ان معیاروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایلیٹؔ یہاں زندگی کی بصیرت کی بات کرتا ہے۔ اس کے نزدیک فن میں بڑائی اس نظریۂ زندگی سے آتی ہے جو قاری کو مربوط، پختہ اور حقیقی تجربے پر مبنی معلوم ہو یعنی سوال کسی اخلاقی یا سماجی نظریے سے اتفاق کا نہیں ہے بلکہ اس کی پختگی اور گہرائی اور اس میں پوری طرح غرق ہونے کا ہے۔ یعنی بڑی شاعری، مذہبی، سماجی، متصوفانہ، اخلاقی، فلسفیانہ سبھی کچھ ہو سکتی ہے مگر اپنے من میں ڈوبنے کی وجہ سے، نہ کسی بڑے فلسفے یا نظریے کی وجہ سے۔ میرے نزدیک فن کی یہ بڑائی اول تو تجربہ کی تہہ داری میں ہے یعنی اس تجربے کی کئی تہیں ہوں اور ان میں سے کسی تہہ سے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں یا ایک تہہ کے آج روشن ہونے اور دوسری کے کل۔ دوسرے یہ بڑائی تجربے کی پیچیدگی میں ہے۔ اس سلسلے میں رچرڈس کا یہ اقتباس دل چسپی سے خالی نہ ہوگا،
’’حال کے انسان کی ساری فکر اور جذبہ اس تجربے کی شکل میں ہوتا ہے جو مثال کے طور پر ازمنۂ وسطیٰ کے انسان کے تجربے کے مقابلے میں زیادہ مخصوص اور منفرد ہوگا۔ آج ہمارے درمیان ازمنۂ وسطیٰ کے انسان کا اس بڑے پیمانے پر موجود ہونا ہمارے لیے غلط فہمی کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ وہ لوگ جن کے لیے شاعر لکھتا ہے اور جن کے لیے اپیل سے ہم اسے پرکھتےہیں۔ ناگزیر طور پر اپنے ذہنوں کی تشکیل میں پہلے سےبہت زیادہ عناصر سے کام لیتے ہیں اور شاعر جس حد تک ان مواقع سے کام لیتا ہے جو اسے میسر ہیں، یہی کرتا ہے۔ یہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ ہم اس بنا پر اسے اپنے قدرتی وسائل سے کام نہ لینے دیں کہ اس کے پڑھنے والے اسے سمجھ نہ سکیں گے۔ یہ اس کا قصور نہیں۔ یہ اس کے سماجی نظام کا قصور ہے۔‘‘ (ادبی تنقید کے اصول ص:۱۹۔ ۲۱۸)
یعنی غالبؔ کے کلام کو ان کے دور میں بہت سے لوگ جب مشکل کہہ کر نظر انداز کر دیتے تھے تو اس میں قصور غالبؔ کا کم تھا، ان کے دور کا زیادہ تھا۔ بات یہ ہے کہ مشاعرے کی شاعری مجموعی طورپر فوری اپیل کی شاعری ہے۔ دوسری بات یہ اہم ہے کہ ازمنۂ وسطیٰ کا ذہن فرد اور اس کی انفرادیت کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتا۔ تیسری بات یہ بھی ہے کہ غالبؔ نے پچیس سال کی عمر سے پچاس سال کی عمر تک زیادہ تر فارسی میں شاعری کی اور اردو میں بہت کم کہا۔ وہ اپنے آپ کو فارسی کا شاعر سمجھتے رہے اور لوگوں کو بھی یہی باور کرایا۔ اسی وجہ سے گارساں دی تاسی۱۸۴۷ء میں ذوقؔ اور ناسخؔ کا ذکر کرتا ہے، غالبؔ کا نہیں کرتا۔
اور غالبؔ کی موت کے کافی عرصے بعد ۱۸۸۳ء میں جب سرسید کے سامنے علی گڑھ میں شعراء کے نام سے دو کمرے بنوانے کی تحریک ہوتی ہے تو اردو کے شاعر ذوقؔ اور فارسی کے شاعر غالبؔ کا نام لیا جاتا ہے۔ ان پر اپنی اردو شاعری کی اہمیت بعد میں کھلی، جس طرح اردو خطوط کی اہمیت کا راز بعد میں سمجھ میں آیا۔ ادب میں ایسی مثالیں اور بھی ہیں۔ یہ حالیؔ کا فیضان ہے کہ ان کی اہمیت و معنویت اردو دنیا پر واضح ہونی شروع ہوئی اور یہ اہمیت ومعنویت برابر بڑھتی جا رہی ہے۔
یہ ایک دل چسپ بات ہے کہ سرسید کی تحریک سے ادب میں مقصدیت کی لے بہت تیز ہو گئی تھی۔ مگر مغرب کے اچھے اثرات میں سے ایک اثر یہ بھی ہوا کہ ادب کی اپنی خصوصیت کو رفتہ رفتہ مناسب اہمیت ملنے لگی اور تخیل کی پرواز، تجربے کی گہرائی، جذبے کے جادو، حسن کاری کے آداب کا احساس بڑھنے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ غالبؔ کے ابتدائی کلام پر بھی نظریں پڑنے لگیں اور بجنوری نے غالبؔ کو ایک آفاقی پس منظر میں پیش کر کے اور ان کی شاعری کی گہری معنویت کی طرف اشارہ کر کے اس رجحان کو تقویت دی۔ حالیؔ کے اثر سے بیدلؔ کے رنگ کو ’’غالب کی بے راہ روی‘‘سمجھا گیا۔ گو اس کی غیرمعمولی بلند پروازی کو بھی تسلیم کیا گیا مگر عام معیار یہی رہا کہ شعر وہی ہے جو ادھر قائل کے منہ سے نکلے ادھر سامع کے دل میں اتر جائے۔ بہ قول حالیؔ ’’جو محاورے روز مرہ کی بول چال اور بات چیت میں برتے جاتے تھے، انھیں کو جب اہل زبان وزن کے سانچے میں ڈھلا ہوا دیکھتے تھے تو ان کو زیادہ لذت ملتی تھی اور زیادہ لطف حاصل ہوتا تھا۔‘‘
چنانچہ عام فہم زبان، مانوس خیالات، فوری ترسیل اور مقصدی لے کے زیر اثر غالبؔ کی ابتدائی شاعری پر وہ توجہ نہ ہوئی جو ہونی چاہیے تھی۔ اس میں شارحین کا بھی قصور ہے جنھوں نے غالبؔ کے اشعار کے صرف معنی بیان کرنے پر قناعت کی اور نہ صوتی آہنگ کو واضح کیا، نہ الفاظ کے مناسب انتخاب اور لفظ کی نبض شناسی پر، نہ چراغانِ خیال پر، نہ اس کی رنگا رنگ بزم آرائی پر اور نہ ان اقدار پر جو غالبؔ کے ان اشعار میں جلوہ گر ہیں۔ حد یہ ہے کہ غالبؔ کو تشبیہات اور استعارات کا بادشاہ کہتے ہوئے ان کے استعارے کے تخلیقی استعمال پر اور استعارے کے ذریعے سے معنی کے کئی پہلوؤں کی طرف ذہن کو مائل کرنےکی صلاحیت پر بھی پوری توجہ نہیں ہوئی مگر غالبؔ کا عرفان بڑھتا گیا۔
اقبالؔ کے اشارے نے بیدلؔ اور غالبؔ کے رشتے پر نئے سرے سے غور کرنے کی طرف مائل کیا۔ جب عام استعمال کی زبان اور ادبی زبان کا فرق سمجھ میں آنے لگا تو محض سادگی اور فوری ترسیل قدر مطلق نہ رہیں۔ جب ادب پر نظریے کی گرفت ڈھیلی ہوئی اور نظر کی گہرائی اور بلندی کو بھی قابل اعتنا سمجھا جانے لگا تو غالبؔ کی ہمہ گیر، متنوع زندگی کے عجائبات، تناقضات اور تضاد کی آئینہ دار شاعری کی معنویت بھی کھلی۔ جب محض خیال یا محض زبان کی میکانکی تقسیم کی لکیر کے فقیر کم ہونے لگے اور شاعری میں خیال کے انوکھے پن، اس کی معنویت، اس کی پہلوداری، اس کی پیچیدگی، جذبات کے تناؤ اور اس تناؤ کو ایک نظر یا ایک تاثر کے ذریعے سے جذب کرنے کی صلاحیت کا اعتراف ہونے لگا تو غالبؔ کے پورے قد کا عرفان بھی بڑھا۔
چنانچہ اول تو آج ہم غالبؔ کے دو یا تین ٹکڑے نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں غالبؔ کی ساری شاعری کو نظر میں رکھنا ہوگا۔ دوسرے ہم اس میں زیادہ تر خزف ریزے اور چند جواہرات نہیں دیکھتے بلکہ صرف چند خزف ریزے اور زیادہ تر جواہرات دیکھتے ہیں اور حالیؔ جہاں لطف کی کمی پاتے ہیں وہاں گنجینۂ معانی کا ایک طلسم دریافت کر سکتے ہیں جو فتح ہو جاتا ہے تو روح کو ایک بالیدگی اور ذہن کو ایک شادابی بخشتا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ میں غالبؔ کے اہم اور قابل قدر اشعار تین سو سے زیادہ ہیں اور حسب ذیل مطلعوں یا پہلے شعر والی غزلیں خاص توجہ چاہتی ہیں۔
تنگی رفیقِ رہ تھی عدم یا وجود تھا
میرا سفر بطالع چشم حسود تھا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا
کارخانے سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا
میری قسمت کا نہ اک آدھ گریباں نکلا
نہ بھولا انتظار دم شمار انتظار اپنا
کہ آخر شیشۂ ساعت کے کام آیا غبار اپنا
شگفتن کمیں گاہ تقریب جوئی
تصور ہوں بے موجب آزردگاں کا
ضعف جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
اب گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تها
خود پرستی سے رہے باہمدگر ناآشنا
بیکسی میری شریک، آئینہ تیرا آشنا
بت پرستی ہے بہار نقش بندی ہائے دہر
ہر صریرِ خامہ میں اک نالۂ ناقوس تھا
یاد روزے کہ نفس سلسلۂ یا رب تھا
نالۂ دل بکمر دامنِ قطعِ شب تھا
رات دل گرمِ خیال جلوۂ جانا نہ تھا
رنگ روئے شمع برقِ خرمنِ پروانہ تھا
دو عالم کی ہستی پہ خط وفا کھینچ
دلِ دوست اربابِ ہمت سلامت
بیدل نہ نازِ وحشتِ جیب دریدہ کھینچ
جو بوئے غنچہ اک نفسِ آرمیدہ کھینچ
قطع سفرِ ہستی و آرامِ فنا ہیچ
رفتار نہیں بیشتر از لغزِش پا ہیچ
بکامِ دل کریں کس طرح گمرہاں فریاد
ہوئی ہے لغزشِ پا لکنتِ زباں فریاد
تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب
بے خطر جیتے ہیں ارباب ریا میرے بعد
تو پست فطرت اور خیال بسا بلند
اے طفلِ خود معاملہ قد سے عصا بلند
بینش بسعیِ ضبطِ جنوں نو بہار تر
دل در گدازِ نالہ بکاہ آبیار تر
فریبِ صنعتِ ایجاد کا تماشا دیکھ
نگاہ عکس فروش و خیال آئینہ ساز
ہر عضو غم سے ہے شکن آسا شکستہ دل
جوں زلفِ یار ہوں میں سراپا شکستہ دل
از آں جا کہ حسرتِ کشِ یار ہیں ہم
رقیبِ تمنائے دیدار ہیں ہم
جائے کہ پائے سیلِ بلا درمیاں نہیں
دیوانگاں کو واں ہوسِ خانماں نہیں
جوں مرد مکِ چشم سے ہوں جمع نگاہیں
خوابیدہ بہ حسرت کدۂ داغ ہیں آہیں
تن بہ بند ہوس در نہادہ رکھتے ہیں
دلِ زکارِ جہاں او فتادہ رکھتے ہیں
سودائے عشق سے دمِ سردِ کشیدہ ہوں
شامِ خیال زلف سے صبحِ دمیدہ ہوں
فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں
بہ رنگِ جادہ سرِ کوئے یار رکھتے ہیں
شکوہ و شکر کو ثمر بیم و امید کا سمجھو
خانۂ آگہی خراب، دل نہ سمجھ بلا سمجھ
خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے
وہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے
تا چند نازِ مسجد و بت خانہ کھینچئے
جوں شمع دل بہ خلوتِ جانا نہ کھینچئے
شکل طاؤس گرفتار بنایا ہے مجھے
ہوں وہ گلدام کہ سبزے میں چھپایا ہے مجھے
گدائے طاقتِ تقریر ہے زباں تجھ سے
کہ خامشی کو ہے پیرایۂ بیاں تجھ سے
نسخۂ حمیدیہ کے اشعار پر غور کرنے سے ایک اور بات واضح ہوتی ہے۔ یہاں غالبؔ کے بہت سے بعد کے اشعار اور تراکیب کا نقشِ اول نظر آتا ہے یعنی غالبؔ کا تخیل نسخۂ حمیدیہ کی تکمیل تک صورت گر اور خلاق ہو گیا تھا۔ گو خیال کی پری ابھی آرایشِ جمال سے فارغ نہیں ہوئی تھی۔ چند شعر ملاحظہ کیجئے،
ہر کفِ خاکِ جگر تشنۂ صد رنگِ ظہور
غنچے کے مے کدے میں مستِ تامل ہے بہار
موجِ خمیازۂ یک نشہ چہ اسلام چہ کفر
کجیِ یک خطِ مسطر چہ تم ہم چہ یقیں
نہ تمنا نہ تماشا، نہ تحیر نہ نگاہ
گردِ جوہر میں ہے آئینۂ دل پردہ نشیں
شورِ رسوائی دل دیکھ کہ اک نالۂ شوق
لاکھ پردے میں چھپا پر وہی عریاں نکلا
فلک کو دیکھ کے کرتا ہے تجھ کو یاد اسدؔ
اگرچہ گم شدہ ہے کاروبار دنیا کا
ہے اسدؔ بے گانۂ افسردگی اے بے کسی
دل زانداز تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا
نہ بخشی فرصتِ یک شبنمستاں جلوۂ خور نے
تصور نے کیا ساماں ہزار آئینہ بندی کا
اسدؔ اربابِ فطرت قدر دانِ لفظ و معنی ہیں
سخن کا بندہ ہوں لیکن نہیں مشتاق تحسیں کا
اے عدوئے مصلحت چندے بہ ضبط افسردہ رہ
کردنی ہے جمع تابِ شوخیِ دیدارِ دوست
جنبشِ دل سے ہوئے ہیں عقدہ ہائے کاروا
کمتریں مزدور سنگیں دست ہے فرہادیاں
تکلف بر طرف فرہاد اور اتنی سبک دستی
خیال آساں تھا لیکن خوابِ خسرو نے گرانی کی
ہو سکے کیا خاک دست و بازوئے فرہاد سے
بے ستوں خوابِ گرانِ خسرو پرویز ہے
شور تمثال ہے کس رشکِ چمن کا یا رب
آئینہ بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے
چنانچہ غالبؔ کے فکر و فن دونوں کی روح تک پہنچنے کے لیے نسخۂ حمیدیہ کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ غالبؔ کی اس دور کی شاعری میں یہ بات خاص طور سے توجہ کے لائق ہے کہ اس عمر میں جب غالبؔ خود اپنے بیان کے مطابق ’’فرد فرہنگ سے بیگانہ‘‘ اور ’’نام و ننگ کے دشمن‘‘ تھے، ان کے یہاں آرایشِ خمِ کا کل سے زیادہ اندیشہ ہائے دو دراز اور جسم کی پکار سے زیادہ روح کی پیاس، حسن کی سحر انگیزی سے زیادہ عشق کی دیدہ وری ملتی ہے یعنی میرؔ، نظیرؔ، جرأت، مومنؔ کا سا عشق نہیں ہے اور نہ لکھنؤ اسکول کی وہ نام نہاد خارجیت جسے کنگھی چوٹی کی شاعری کہا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ غالبؔ کے یہاں فن کار کا ذوق تماشا ہے، عاشق کا ذوقِ شہادت نہیں۔
دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عنفوانِ شباب میں ہی غالبؔ کا ذہن، انھیں تخئیل کے عشرتستان کی طرف لے گیا۔ وہ دنیا کی رنگینیوں سے گزرے مگر ان رنگینیوں میں غرق نہ ہوسکے۔ تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ غالبؔ کی شخصیت اپنا ایک مزاج بنانے میں جلد کامیاب ہو گئی۔ ان کے بچپن اور عنفوان شباب پر ابھی بہت سے پردے پڑے ہوئے ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سرشاری کے دور میں چند محرومیاں بھی تھیں اور یہ محرومیاں خیالی دنیا میں اپنی تلافی ڈھونڈتی تھیں۔ کچھ رسوائیاں بھی ہیں جن کی طرف ایک مشہور غزل اور بعض خطوط میں اشارے ہیں مگر مجموعی طور پر غالبؔ میرؔ کے سے عاشق نہیں، نہ جرأت کی طرح لذیت کے شکار ہیں، نہ نظیرؔ کے چٹخارے کے، نہ مومنؔ کے عشق بتاں کے بلکہ عشق بھی ان کےیہاں وہ تیز رو ہے جس کے ساتھ وہ تھوڑی دیر تک چلتے ہیں تاآنکہ وہ اپنے راہبر کو پہچان لیتے ہیں، جو زندگی کا عرفان عطا کرتا ہے، جو تجربے سے تجزیے اور تجزیے سے تنظیم شعر کی طرف جاتا ہے۔
فن بہرحال زندگی کی ایک معنی خیز اور نئی تنظیم ہے جو زندگی سے عشق بھی عطا کرتی ہے اور اس کا عرفان بھی۔ یہاں تشکیک ایک نئے ایمان کی تلاش، عقلیت گوشت میں ہڈی دریافت کرنے کی کوشش اور نفسیاتی ژرف بینی، مختلف حقائق کو الٹ پلٹ کر ان کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کا دوسرا نام بن جاتی ہے۔ رومانیت ایک بت ہزار شیوہ ہے۔ غالبؔ کی رومانیت ان کی تخئیل پرستی میں ہے۔ آگے چل کر تخئیل کی یہ پرواز تجربے کے دوش بدوش چلتی ہے۔ صرف ذوق پرواز کے سہارے نہیں۔
میرے نزدیک غالبؔ کے تخئیل ہی میں ان کی شوخی کا راز مضمر ہے۔ اس تخئیل نے شروع میں ایک خیالی دنیا بنائی جس میں زندگی کی بے ربطی، منتشر جلوے، مختلف رنگ، ہونی اَن ہونی، سب ایک سنہرا ہالہ لیے اور ایک نئی رنگین اور طلسمی فضا کی حامل نظر آتی تھیں۔ اس دنیا میں شاعر آزاد تھا۔ اپنی مرضی کا مالک تھا۔ خورشید وماہ، حیات وکائنات، ہستی وعدم سب پر حکمراں تھا۔ یہاں آرزوئیں تقدیر تھیں۔ امیدیں حقیقت۔ یہ تخئیلی دنیا شاعر کو اس لیے عزیز تھی کہ وہ اس کے سہارے اپنی محرومیوں کی تلافی بھی کر لیتا تھا اور اپنی شخصیت کی حفاظت بھی۔
مگر غالبؔ کے یہاں زندگی کے تجربے بھی تھے۔ رگوں میں خون بھی دوڑتا تھا۔ عیش امروز کی روایت بھی بزرگوں سے ملی تھی۔ اگرچہ بزرگوں کا نیزہ قلم بن گیا تھا مگر حالات سے جنگ اور ایک وضع کی پاس داری بھی مزاج کا جزو تھی، اس لیے خیال کی دنیا میں رفتہ رفتہ تجربات کے رنگ گہرے ہوتے گئے۔ ہرقطرے میں دجلہ اور ہر ذرے میں صحرا دکھائی دینے لگا۔ مخصوص تجربے میں گہرائی آنے لگی اور وہ ایک آفاقیت کا حامل ہونے لگا۔
رومانیت اور طنز میں ایک رشتہ تخئیل کا ہے۔ اگرچہ دونوں کے دائرے جدا جدا ہیں۔ ایک میں قطرہ دکھائی دیتا ہے، دوسرے میں دریا۔ قطرہ ایک دور بین ہے دوسرا خوردبین۔ غالبؔ کی فکر جب پختہ ہوئی تو ان کی معنی آفرینی شوخی بن گئی۔ یہ شوخی ذہن کی براقی اور نکتہ سنجی کی ہے۔ محض تفریحی نہیں۔ اس کے پیچھے وہی غائر نظر ہے جو پہلے معنی کی رسی بٹنے میں صرف ہوئی تھی اور اب ہر چاند کا دھبہ اور ہر دھبے کا چاند دیکھ سکتی ہے اور جو رفتہ رفتہ ایک لطیف مزاج بن کر، اپنے اوپر بھی ہنس سکتی ہے۔
غالبؔ کبھی جذباتی نہیں ہوئے، جذبے سے انھوں نے آنچ لے لی مگر اسی آنچ سے آرزؤوں کے غم کدے میں مزاح کا اجالا بھی کیا۔ ان کے یہاں وہ ذہن ہے جو واقعات و حادثات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پھر ان کے یہاں مختلف قسم کے تجربات بھی ہیں۔ پھر ایک خاص دھن بھی، خواہ پنشن کی سہی جو انھیں کلکتہ تک لے جاتی ہے۔ ان کا سابقہ بھی ہرقسم کے لوگوں سے پڑتا ہے۔ رئیس زادوں سے، عالموں سے، رندوں سے، سپاہیوں سے، صوفیوں سے، ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں سے، غیر ملک سے آنے والے افسروں سے۔ ان سے پہلے کے کسی شاعر کا حلقہ اتنا وسیع نہیں ہے نہ اتنے لوگوں سے گہرے روابط ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ رلکے نے کہا ہے، وہ باہر دیکھتے ہیں اور ان کے اندر درخت نشو و نما پاتا ہے۔ یعنی معاملہ صرف خارجی حقائق کا نہیں خارج کے ایک شخصیت سے باطنی رابطے کا ہے۔ Subjective Communion with objective reality غالبؔ نے یہی بات ایک مزے کے شعر میں کہی ہے،
بے چشمِ دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار
یعنی یہ ہر ورق ورقِ انتخاب ہے
غالبؔ کی عظمت اس بات میں ہے کہ ان کے پاس دل کی آنکھ بھی ہے اور سیر لالہ زار بھی بلکہ دل کی آنکھوں نے لالہ زار کو ایک خاص رنگ عطا کیا ہے۔ غالبؔ سے پہلے کسی شاعر کے یہاں ایسی بھرپور شخصیت نہیں ملتی۔ اس بھرپور شخصیت کا لازمی حصہ تنہائی ہے اور غالب کی یہ تنہائی مردم بیزاری کی وجہ سے نہیں، آدمیوں میں رہتے ہوئے اپنے الگ وجود اور الگ دنیا پر اصرار کی وجہ سے ہے۔ اس تنہائی نے ان کو ہر موج کے ساتھ بہنے نہ دیا، نہ ہجوم میں کھونے دیا۔ اس نے ان کے نفس کی حفاظت کی۔ ان کے ذہن کو تر و تازہ رکھا۔ حادثوں کے بوجھ میں دبنے نہ دیا، سرخوشی میں بدمست نہ ہونے دیا۔ اس نے انھیں پابندی Dependence کےبجائے آزادی Independence سکھائی۔
اس نے ان کی انفرادیت کو چمکایا اور اس انفرادیت کو آفاقیت کی ایک گونج بنا دیا۔ اس نے انھیں ایک جدلیاتی نظر عطا کی اور انداز استغنائے حسن کی رسوائی اور طرب گاہ رقیب کی گرسنہ مزدوری، لاف دانش و نفع عبادت، سجہ و زنار کے پھندے کی گیرائی، ترکِ رسوم میں اجزائے ایمان اور ہر شخص کا ورق ناخواندہ ہونا عیاں کیا۔ اس نے زندگی کو بدلنے کے بجائے اسے دیکھنے، اسے سمجھنے اور اس کے بکھرے ہوئے اشاروں سے اپنی داستانِ طلسم ہوش ربا تیار کرنے کی طرف مائل کیا۔ اس نے انھیں شاعری کو پیغمبری کا جزو سمجھنے کے بجائے اس کی اپنی پیمبری پر اصرار کرنا سکھایا۔
غالب وجدان کے نہیں ذہن کے شاعر ہیں۔ inspiration کے نہیں intellect کے۔ مگر ان کا ذہن وجدان کی پسی ہوئی بجلیوں سے بنا ہے۔ غالبؔ دور کے نہیں دوران کے شاعر ہیں، ان کا وقت تصور ان کے زمانے کے عام معیار میں مقید نہیں۔ اس میں ماضی کا رچا ہوا شعور اور حال کے پیچ و خم کا احساس اور آنے والے دور کی کرنیں سبھی ہیں۔ خلوت دل نے اس کی شخصیت کی تربیت و تہذیب کی۔ زندگی کے تجربات نے اس شخصیت کو استواری عطا کی۔ انھوں نے آدمیت کو کافی سمجھا اور یہ اشارہ کر دیا کہ آدمی کو بھی انسان ہونا میسر نہیں۔ یہ انسانیت کے تصور سے انکار نہیں ہے مگر آدمی کی لمبی کہانی کا احساس اور اس کے وجود کا کھلے دل سے اعتراف کرنا ہے، جو ہے اسے تسلیم کرنا ہے، جو ہونا چاہیے اسے دوسروں کے لیے چھوڑ دینا ہے۔ غالبؔ کی اس آدمیت سے ان کی انسان دوستی، ان کی ارضیت، ان کی رواداری، ان کی وسیع المشربی، سبھی کا سراغ ملتا ہے۔
غرض جب تک ہم پورے غالب کا مطالعہ نہ کریں، ہم غالبؔ کی عظمت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہمیں ان کے فکر و فن کے علاحدہ علاحدہ خانے بھی نہیں بنانے چاہئیں ورنہ ہم اس غلطی کا شکار ہو جائیں گے جو ہمارے بہت سے ناقدین سے غالبؔ کے خیال اور ذوقؔ کی زبان کی تعریف میں سرزد ہوئی۔ غالب کی شخصیت اور ذوقؔ کی شخصیت میں فرق تھا۔ ذوقؔ کا ذہن تقلیدی تھا۔ غالبؔ کا باغیانہ اور کافرانہ۔ جب کچھ منجمد حقائق جھوٹ بن جاتے ہیں تو سچ جنون کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ اسی کو رسل نے کذب کی ہوش مندی کہا ہے، To be same with lies اور اس کے مقابلے میں سچ کی دیوانگی پر زور دیا ہے۔
تھی نظر میری نہاں خانۂ دل کی نقاب
بے خطر جیتے ہیں ارباب ریا میرے بعد
غالبؔ کوئی بہت اچھے آدمی نہیں تھے مگر وہ بڑے مزے کے آدمی تھے۔ بڑے کڑھے ہوئے آدمی تھے۔ وہ اپنے کاندھے پر بہت سے ارمانوں کی لاشیں لیے رہے مگر اس عالم میں بھی ان کا تبسم زیر لب نہ گیا۔ ان کی نسخۂ حمیدیہ کی شاعری نے ہماری شاعری کو فکری اظہار پر قادر بنا دیا۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ فکری اظہار کے لیے عجمی لے ضروری ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اردو زبان ہندوستان کے ذہن، عرب کے سوزِ دروں، عجم کے حسنِ طبیعت، سب سے بہ قدر ضرورت اور حسب توفیق کام لے سکتی ہے۔
اب یہ خیال ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ غالبؔ کے یہاں اردوپن نہیں ہے۔ غالبؔ کے اردوپن اور آرزوؔ کے اردو پن میں فرق ہے۔ آرزوؔ کا اردو پن جذبے کا ساتھ دے سکتا ہے۔ غالبؔ کا اردو پن انفس و آفاق کے آیات تک پہنچ سکتا ہے، اس لیے خواہ وہ ابوالکلام آزادؔ کی جزالت ہو یا اقبالؔ کی حکمت، راشدؔ کی فن کاری ہو یا عبد العزیزؔ خالدؔ کی لفظ تراشی، یہ سب اردو پن کے ہی مختلف روپ ہیں۔ بڑی شاعری ایک طور پر متصوفانہ بصیرت Nystio vision تک پہنچ جاتی ہے، کیونکہ ہر شاعر ایک Absolute کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ غالبؔ کے یہاں بھی Concretes, Absolute کی کثرت کے مشاہدے سے ہی سمجھ میں آتا ہے۔ اس بات کو ایف آر لیوس نے اس طرح کہا ہے کہ آفاقیت، مخصوصیت کے ذریعے سے آتی ہے۔ زمین کے ہنگاموں کو سہل کرنے کا بیڑا اقبالؔ نے اٹھایا مگر غالبؔ نے یہ درد سر مول نہ لیا۔ انہیں سیر کے لیے برابر اور فضا درکار رہی اور وہ اس کے نظارے میں محو رہے۔ یہی ان کی عظمت کا راز ہے،
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
اقبالؔ نے بالِ جبریل کے ایک شعر میں کہا ہے،
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو
یہ خیال غالبؔ سے لیا گیا ہے اور میں اسے غالبؔ کا کارنامہ سمجھتا ہوں کہ انھوں نے انفرادیت کی تکمیل اور فن کے ریاض کو ایک قدر اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا،
یک بخت اوج نذر سبک باریِ اسدؔ
سر پر وبالِ سایۂ بالِ ہما نہ مانگ