پرانے لوگ نئے کاروبار دیتے ہیں

پرانے لوگ نئے کاروبار دیتے ہیں
خزاں خرید کے فصل بہار دیتے ہیں


ضرور ان کو محبت سے واسطہ ہوگا
جو رنج و غم کے عوض ہم کو پیار دیتے ہیں


شب وصال کی لذت انہیں نصیب ہوئی
جو انتظار کی گھڑیاں گزار دیتے ہیں


ہمارے اشک محبت میں قیمتی ٹھہرے
غم حیات کی قسمت سنوار دیتے ہیں


ملن کی رت پہ بشر کیا درخت اور پودے
سب اپنی اپنی قبائیں اتار دیتے ہیں


ہماری جان کی قیمت چکا رہے ہیں وہ
ملا کے خاک میں مشت غبار دیتے ہیں


ہم اپنے آپ میں خود با وقار ہیں آصیؔ
جو بے وقار ہیں اپنا وقار دیتے ہیں