پر کیف ضیائیں ہوتی ہیں پر نور اجالے ہوتے ہیں

پر کیف ضیائیں ہوتی ہیں پر نور اجالے ہوتے ہیں
جب خاک بسر دل ہوتا ہے اور عرش پہ نالے ہوتے ہیں


ہنستے ہیں دہان زخم سے ہم گاتے ہیں فغاں کے بربط پر
آشفتہ سروں کی دنیا کے سب ڈھنگ نرالے ہوتے ہیں


کیا قہر برستا ہے دل پر ساون کی شبوں میں کیا کہئے
کچھ درد کی پھواریں ہوتی ہیں کچھ یاس کے جھالے ہوتے ہیں


ان اجڑے ہوئے ارمانوں کو کس شوق سے دل نے سینچا تھا
برباد مگر ہوتے ہیں وہی جو نام کے پالے ہوتے ہیں


چاہت کے ستم برداشت کریں مر مر کے جئیں اور مر نہ سکیں
کیا جانئے کس مٹی کے بنے یہ چاہنے والے ہوتے ہیں


دل تنگ نہ ہو اے رہرو غم کانٹوں کے لئے تو کم سے کم
مانند نوید ابر کرم یہ پاؤں کے چھالے ہوتے ہیں


اف رے وہ نزاکت لہجے کی باتیں جو نکلتی ہیں منہ سے
یا چاند کی کرنیں ہوتی ہیں یا برف کے گالے ہوتے ہیں


یہ درد جنوں یہ سوز جگر ان کیفتیوں کے گرد اخترؔ
تسخیر کے حلقے ہوں کہ نہ ہوں تقدیس کے ہالے ہوتے ہیں